پاکستان

حکومت کا 16 افغان پناہ گزین کیمپ بند کرنے کا منصوبہ

بہت سے افغان پناہ گزین ایسے ہیں جو برسوں سے ان بستیوں میں مقیم ہیں اور اس فیصلے پر شدید مایوسی ہے کہ یہ ان کی زندگی پر کس طرح کا اثر ڈالے گا، یو این ایچ سی آر

پاکستان نے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں 16 افغان پناہ گزین کیمپ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل جاری ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کو مطلع کیا تھا کہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی باقاعدہ وطن واپسی اور ملک بدری کا عمل یکم ستمبر سے شروع کیا جائے گا۔

یہ فیصلہ وزارت داخلہ کے 31 جولائی کے اعلان کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ پی او آر کارڈ ہولڈرز، جو کہ پاکستان میں بغیر ویزا قانونی طور پر مقیم آخری افغان باشندے تھے، 30 جون کو کارڈز کی مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی رہائشی تصور کیے جائیں گے۔

25 ستمبر 2025 کو وزارت ریاست و سرحدی امور (سیفران) کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشنز کے مطابق ختم کیے جانے والے کیمپ خیبرپختونخوا میں ہری پور، چترال اور اپر دیر، بلوچستان میں چاغی، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین اور کوئٹہ جبکہ پنجاب میں میانوالی میں واقع ہیں۔

جب ان کیمپوں کے خاتمے پر افغان چیف کمشنر سے رائے پوچھی گئی تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ہری پور کے ایک مرکزی کیمپ کے نمائندے حاجی عبدالصمد نے اس ہفتے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مقامی حکام نے انہیں حکومتی پالیسی کے مطابق کیمپ خالی کرنے کو کہا ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ پنیان کیمپ میں کوئی چھاپہ مارا گیا اور نہ گرفتاری ہوئی، اسی طرح پناہ گزینوں پر جانے کے لیے کوئی دباؤ بھی نہیں ڈالا گیا، ، اس کیمپ میں تقریباً 13 ہزار خاندان اور 90 ہزار سے زائد پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت پناہ گزینوں کو زبردستی واپس نہیں بھیجے گی۔

وزارت سیفران کے نوٹیفیکیشنز میں کہا گیا ہے کہ ڈینوٹفائیڈ کردہ جگہوں کو صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذکورہ علاقوں کے اندر موجود غیر منقولہ اثاثے بھی صوبوں اور ڈپٹی کمشنرز کے حوالے کیے جائیں گے۔

زیادہ تر کیمپ 1980 کی دہائی کے اوائل میں قائم کیے گئے تھے، جب سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد افغان پناہ گزین پاکستان آنا شروع ہوئے تھے۔

یو این ایچ سی آر کا اظہار تشویش

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے پاکستان کے بعض پناہ گزین بستیوں کو ختم کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادارے نے اعادہ کیا کہ واپسی کا عمل رضاکارانہ، بتدریج، محفوظ اور باوقار ہونا چاہیے۔

یو این ایچ سی آر پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’بہت سے افغان پناہ گزین ایسے ہیں جو برسوں سے ان بستیوں میں مقیم ہیں اور اس فیصلے پر شدید مایوسی ہے کہ یہ ان کی زندگی پر کس طرح کا اثر ڈالے گا‘

قیصر خان آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ’یو این ایچ سی آر زور دیتا ہے کہ بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت رکھنے والے اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پناہ گزینوں کو خاص مسائل درپیش ہیں اور انہیں زبردستی واپس بھیجنے سے گریز کرنا چاہیے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے 2023 میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان یہ بھی مؤقف رکھتا ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے اور پناہ گزینوں کو واپس جانا چاہیے۔

تاہم پناہ گزینوں نے ٹرانسپورٹ کی کمی کی شکایت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے گھریلو سامان کی منتقلی کے لیے ٹرک تلاش کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

میانوالی کیمپ میں پناہ گزینوں کے نمائندے گدا علی خان زدران نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو سامان افغانستان لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ تلاش کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔

گدا علی خان زدران نے یہ بھی کہا کہ کرایہ بھی بڑھا دیا گیا ہے، جو پہلے 3 لاکھ روپے تھا اب 6 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق 30 جون 2025 تک پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد افغان موجود تھے، ان میں سے 7 لاکھ 17 ہزار 945 خیبرپختونخوا، 3 لاکھ 26 ہزار 584 بلوچستان، ایک لاکھ 95 ہزار 188پنجاب، 75 ہزار 510 سندھ اور 43 ہزار 154 اسلام آباد میں مقیم تھے۔