مودی کی جغرافیائی سیاسی بساط پر جدوجہد، اقوام متحدہ کے تاریخی اجلاس میں خطاب سے محروم
جولائی کے مہینے تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ کی مقررین کی فہرست میں شامل تھے اور جنرل اسمبلی کی 80ویں سالگرہ پر خطاب کرنے والے تھے، تاہم ان کی جگہ بھارت کی نمائندگی وزیر خارجہ ایس-جے شنکر کو کرنا پڑ گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں بھارت کی نمائندگی وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر نے کی جنہوں نے خود انحصاری، خود تحفظ اور خود اعتمادی کو اپنا ’منتر‘ قرار دیا۔ تینوں اصطلاحات کا سنسکرت میں ذکر کرتے ہوئے جے شنکر نے بھارت کے لیے ’بھارت‘ نام کے استعمال پر زور دیا تاکہ ہندو قوم پرستوں کی باریک رائے کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔
نریندر مودی کے اس سال اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کی کوئی سرکاری وضاحت نہیں دی گئی، لیکن واضح شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کھلے عام جنوبی ایشیا میں بھارت سے زیادہ پاکستان کو قریبی دوست کے طور پر ترجیح دینا تھا۔
مودی کے اقوامِ متحدہ کے دوروں پر ہمیشہ امریکی صدر سے ملاقات کرنے کا اصول خطرے میں تھا، ضروری نہیں کہ ٹرمپ نے ایسی ملاقات میں عدم دلچسپی کا اشارہ دیا ہو، بلکہ زیادہ امکان اس بات کا تھا کہ امریکی صدر کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم اور فوجی سربراہ کی خوشگوار تصاویر کے اثرات وہ آخری وجہ بنے، جس نے بھارتی وزیر اعظم کو اس دورے سے روک دیا۔
تاہم، مودی نے اپنی آمادگی ظاہر کی کہ وہ ٹیرف اور ٹرمپ کی زبانی تنقید کے بادلوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، بھارت نے امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات اس اُمید پر کھلے رکھے کہ نئی دہلی کے بیجنگ کے قریب جانے کے امکان کو امریکی پالیسی ساز ایک ناقابلِ قبول خطرہ سمجھیں گے، لیکن بھارت نے اس اندازے کو بڑھا چڑھا کر سمجھا۔
بھارتی وزیر اعظم نے اس متبادل منظرنامے کا اشارہ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، تیانجن میں ایس سی او اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی ملاقات نہ صرف گرمجوش بلکہ پرجوش تھی۔
نریندر مودی نے میزبانی پر شکریہ ادا کرنے کے ساتھ قازان میں ہونے والی بات چیت کا ذکر کیا اور کہا کہ ہماری بات چیت انتہائی مفید رہی جس نے تعلقات کو مثبت سمت دی، سرحد پر تناؤ کم ہونے کے بعد اب امن اور استحکام کا ماحول قائم ہے، ہمارے خصوصی نمائندوں نے بھی سرحدی انتظام پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیلاش مانسروور یاترا دوبارہ شروع ہوگئی ہے، دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست پروازیں بھی بحال ہو رہی ہیں، ہمارا تعاون دونوں ممالک کے 2 ارب 80 کروڑ عوام کے مفاد سے جڑا ہوا ہے، یہ پوری انسانیت کی فلاح کی راہ بھی ہموار کرے گا، ہم اپنے تعلقات کو باہمی اعتماد، احترام اور حساسیت کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے پابند ہیں۔
ایس سی او اجلاس میں اپنی تقریر میں نریندر مودی نے چین سے نام لیے بغیر ایک متنازع مسئلے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ رابطے کے ہر اقدام میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کو قائم رکھنا چاہیے، یہ بات ایس سی او چارٹر کے بنیادی اصولوں میں بھی شامل ہے، خودمختاری کو نظر انداز کرنے والا رابطہ آخرکار اعتماد اور معنی دونوں کھو دیتا ہے۔
یہ اشارہ واضح طور پر قراقرم ہائی وے اور شکسگم وادی کی طرف تھا، جسے پاکستان نے 1962 میں چین کے حوالے کیا اور جس پر بھارت دعویٰ کرتا ہے۔
نریندر مودی نے چین کے ساتھ کام کرنے کے مثبت فریم ورک کا اشارہ دیتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بھی ایسا ہی مؤقف اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور روس ہمیشہ مشکل ترین حالات میں بھی شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، ہمارا قریبی تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔
مودی دسمبر میں نئی دہلی میں پیوٹن کا استقبال کرنے کے منتظر ہیں، اگر سامع ٹرمپ ہوں تو یہ جرات مندانہ الفاظ ہیں، مودی نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں بھارت کی شمولیت کا بھی ذکر کیا جس پر امریکا ناخوش ہے۔
تاہم کہانی کا موڑ یہ ہے کہ پاکستان بھی ان تینوں ممالک یعنی امریکا، روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات پروان چڑھانے میں لگا ہوا ہے، جن میں مودی دلچسپی رکھتے ہیں۔