ٹرمپ امن منصوبہ: ’نسل کشی کا مرتکب ملک جیت چکا ہے‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلآخر غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنے 20 نکاتی منصوبے کی نقاب کشائی کر دی ہے جسے وہ دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی معاہدے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ظالمانہ قبضے کے سامنے فلسطینی مزاحمت کے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں ہے۔
اس مسودے نے صہیونی افواج کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی کی ایک طرح سے حمایت کی ہے جس میں دسیوں ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ مقبوضہ سرزمین کی پوری آبادی کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
یہ منصوبہ واقعی یہ کہنے کا ایک طریقہ ہے کہ جنگی جرائم کا مرتکب ملک جیت گیا ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے نام نہاد امن منصوبے کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
صدر کے طور پر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ابراہم معاہدے کے پیچھے بھی جیرڈ کشنر ہی محرک تھے۔ اپنی طرف سے ٹونی بلیئر نے بطور وزیرِ اعظم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیار رکھنے کے جھوٹے دعووں کی بنیاد پر عراق پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے اور قبضے کی حمایت کی تھی۔ عرب دنیا اور برطانیہ میں بھی بہت سے لوگ انہیں جنگی مجرم سمجھتے ہیں۔
یہ حیران کُن نہیں تھا کہ اسرائیل نے تازہ ترین امریکی منصوبے کو فوراً قبول کر لیا۔ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کے ساتھ موجود اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو جن پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے، کے پاس امریکی رہنما کی تعریف کے سوا کچھ نہیں تھا جنہوں نے کہا کہ ’حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو میری مکمل حمایت حاصل ہو گی‘۔
اس امن منصوبے کو بالکل درست طور پر خطے میں اسرائیل کے فوجی تسلط کو یقینی بنانے کے لیے ’ٹرمپ-نیتن یاہو منصوبہ‘ قرار دیا گیا ہے۔
حماس کو اس منصوبے کو قبول کرنے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے جبکہ اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے گروپ سے مشاورت ہی نہیں کی گئی۔ حماس کو وقت دیا گیا ہے کہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور اس کی تحویل میں مرنے والے اسرائیلیوں کی لاشیں واپس کی جائیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطینی جوکہ اس تنازع کے مظلوم فریق ہیں، ان سے بھی اس نام نہاد امن منصوبے پر مشاورت نہیں کی گئی حالانکہ اس کا مقصد ان کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔
پاکستان سمیت بڑے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں نے پہلے ہی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس سے بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کو نوآبادیاتی حکومت کے تحت رکھا جائے گا۔
اس معاہدے میں مختصر طور پر مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے امکان کا صرف ایک مبہم ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے تصور کو مسترد کر چکا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کو مغربی کنارے کو الحاق کرنے سے روک دیا گیا ہے لیکن کچھ سخت گیر اسرائیلی وزرا نے ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔
غزہ منصوبے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگ فوری طور پر ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی فورسز کو صرف یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حدود پر واپس جانا ہے۔ اس وقت کے دوران ’تمام فوجی کارروائیاں بشمول فضائی و زمینی بمباری کو معطل کر دیا جائے گا اور جنگ اس وقت تک منجمد رہے گی جب تک کہ مکمل انخلا کے لیے شرائط پوری نہیں ہو جاتیں’۔
اس کے علاوہ ’تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد حماس کے ارکان جو پُرامن رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو اراکین غزہ چھوڑنے کی خواہش کرتے ہیں، انہیں فرار کا محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ یہ کم و بیش اس گروپ کے مکمل ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ ہے جو صہیونی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی سربراہی کر رہا ہے۔
مقبوضہ علاقے میں جنگ کے بعد کے انتظامی سیٹ اپ میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی جو مقبوضہ مغربی کنارے کو کنٹرول کرتی ہے، اسے بھی جنگ کے بعد کے سیٹ اپ میں کوئی کردار نہیں سونپا گیا ہے۔ اس سے عملی طور پر فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ فلسطینی گروپوں کو جنگ کے بعد کے سیٹ اپ سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔
تاہم اسرائیل کی جارحیت کے پیش نظر قابض افواج کے ’مرحلہ وار انخلا‘ پر بھی مکمل عمل درآمد غیر یقینی ہے۔ درحقیقت اس منصوبے نے اسرائیل کو مزید حوصلہ دیا ہے جہاں انتہائی دائیں بازو کے گروہ کی حکومت ہے جو ایک ’گریٹر اسرائیل‘ کے قیام کی کھلے عام وکالت کرتے ہیں جبکہ یہاں آزاد فلسطینی ریاست کے لیے کوئی گجائش نہیں ہے۔
امریکی منصوبے کے مطابق، ’غزہ پر ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری نظام کے تحت حکومت کی جائے گی‘ جو ایک نئے بین الاقوامی عبوری ادارے ’بورڈ آف پیس‘ کی نگرانی میں کام کرے گی جس کی سربراہی ٹرمپ اور ٹونی بلیئر سمیت دیگر کریں گے۔ یہ عملاً مقبوضہ علاقے پر غیر معینہ مدت کے لیے امریکا کو کنٹرول دے دے گا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تجویز ٹرمپ کی فروری میں غزہ کو امریکی کنٹرول میں رکھنے کی تجویز سے زیادہ مختلف نہیں ہے تاکہ انکلیو کو سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جا سکے۔
ٹرمپ انتظامیہ عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں تعینات کی جانے والی ایک عارضی ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ (آئی ایس ایف) تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے اس کا بنیادی کام، غزہ میں نئی بننے والئ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرنا ہوگا۔
آئی ایس ایف میں مختلف مسلم ممالک کی افواج شامل ہوں گی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، فوجیوں کا بڑا حصہ انڈونیشیا اور پاکستان سے آئے گا، جو دو سب سے بڑی مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ ٹرمپ کی پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی تعریف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے منصوبے پر پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔
آئی ایس ایف مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک اسرائیلی سیکیورٹی فورسز غزہ میں موجود رہیں گی، جبکہ ’اس کے بعد بھی اسرائیل اس وقت تک غزہ کے گرد حفاظتی زون بنائے رکھے گا جب تک کہ اسے یقین نہ ہو کہ دہشتگردی کی واپسی کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ہے‘۔
یقینی طور پر جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے ہاتھوں قتل و غارت گری کا خاتمہ کرے گی اور انتہائی ضروری انسانی امداد کی اجازت دے گی۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی منصوبہ فلسطینی عوام کے آزاد ریاست کے حق کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے بغیر خطے میں طویل مدتی امن قائم کر سکتا ہے؟
حماس کو غیر مسلح کیا جا سکتا ہے لیکن غزہ میں ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے دو سال سے جاری نسل کشی میں اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا؟ فلسطینیوں کی ایک پوری نسل جنہوں نے صرف موت اور بھوک دیکھی ہے، ان کے غصے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
متنازع منصوبہ زیادہ عدم اطمینان اور بےیقینی کی صورت حال کا باعث بنے گا۔ فلسطینیوں نے بجا طور پر امریکی منصوبے کو ایک مذاق قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
