نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (اڑتیسویں قسط)

رنجیت سنگھ کی قید سے شاہ شجاع کا چھپ کر بھاگنا، فیروز پور سے لدھیانہ پہنچنا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں گوری سرکار کی اندرونی مدد شامل تھی۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


یہ کتنا حیرت انگیز، شاندار اور گہرائی سے سوچنے جیسا ہے کہ چند لمحوں کی الٹ پھیر سے سورج روز اُگتا ہے صبح، دوپہر اور شام ہوتے ہیں۔ مگر ایک دن دوسرے دن جیسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ ایک پَل بھی دوسرے پل جیسا نہیں ہوتا۔

حتیٰ کہ آپ کی اور ہماری کیفیت جو کل صبح 8 بج کر 50 منٹ پر تھی، وہ آج نہیں ہوگی بلکہ جب تک ہماری سانس کی ڈوری زندگی کے لمحات کو دُھنکتی رہے گی تب تک وہ کیفیت کبھی واپس نہیں لوٹے گی۔

یہ فطرت اور ہمارے صدیوں کے ساتھ کا نتیجہ ہے کہ ہم بہت سے ناممکن معاملات کو ممکنات کے دائرے میں لا کر ایک تسلسل اور یکسوئی کے ساتھ دوسرے کو سمجھا سکتے ہیں۔

ہم نے سندھ کے امیروں کو انتہائی پریشان کر دینے والے حالات میں حیدرآباد کے اس شاندار قلعے کے وسیع دالانوں اور آنگنوں میں چھوڑا تھا۔ کَچھ کا علاقہ ریت کی طرح دھیرے دھیرے ان کے ہاتھوں سے کِھسکتا جا رہا ہے۔ مگر کَچھ والا مسئلہ کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ فی الوقت تالپور اس کے لیے پریشان نہیں ہیں۔ زیادہ پریشانی رنجیت سنگھ کے حملے کی ہے، اگر وقت پر تدارک نہ کیا گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

حیدرآباد کے قلعے میں اس قسم کی باتیں ہیں جو دہرائی جا رہی ہیں کیونکہ تالپور جانتے ہیں کہ رنجیت سنگھ رات کو سوتا کم ہے اور اپنی ریاست کو وسعت دینے کے لیے چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ زیادہ کر رہا ہے۔

1818ء میں تالپوروں تک یہ خبر پہنچی کہ رنجیت سنگھ نے مٹھن کوٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ سندھ پر حملہ کرنے کی تیاری میں ہے بلکہ وہ خود سندھ پر حملہ کرے، اس سے پہلے اس نے اپنے پوتے نو نہال سنگھ کو بڑے لشکر اور جنگی سامان کے ساتھ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ خود رنجیت سنگھ بھی بول پڑا کہ ’سندھ کے امیر جو پہلے خراج کے 12 لاکھ روپے کابل سرکار کو دیتے تھے اب لاہور سرکار کو دیں’۔

ساتھ ہی سندھ پر حملہ کرنے کے لیے ماحول تیار کرنے کے لیے ملتان کے نائب دیوان سانون مل اور کنور نونہال سنگھ نے مٹھن کوٹ (ضلع راجن پور کے جنوب میں 17 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) کے مقام پر خالصہ فوج کے توپ خانے کا مظاہرہ کیا۔ توپوں میں بھرے بارود کی آواز ان زمانوں میں کچھ میلوں تک ضرور سنائی دیتی ہوگی مگر توپیں چلنے کے ڈر سے لبریز باتیں سیکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے سندھ کے امیروں تک پہنچیں تو بے چینیوں اور پریشانیوں کے کرگس پکے قلعے کے منڈیروں پر آ کر بیٹھے۔

میر کرم علی خان اور اس کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شکارپور سے آگے سکھوں سے جنگ کرنی چاہیے۔ مگر میر مراد علی خان جو سیاسی حوالے سے کچھ سنجیدگی سے سوچتا تھا، اس نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور اپنے بھائی کو سمجھایا کہ ’رنجیت سنگھ سے لڑائی کرنا ان حالات میں مشکل ہے کیونکہ وہ پشاور سے کشمیر تک، کشمیر سے کرنال، ملتان، مٹھن کوٹ، دیرہ جات جو افغانوں کے قبضے میں تھے وہ سارے اب رنجیت سنگھ کی حکومت میں شامل ہیں جبکہ دیرہ جات کے بلوچ سردار بھی سکھوں سے لڑنا نہیں چاہتے، اس لیے اس وقت مناسب یہی ہے کہ انگریز سرکار سے مدد لی جائے’۔

کمپنی سرکار بھی یہ چاہتی تھی کہ سندھ کے امیر اسی صورت میں ان کی جھولی میں آ گریں گے کہ جب جنوب سے کَچھ بُھج اور شمال مشرق سے سکھوں کی صورت میں دباؤ ڈالا جائے گا۔

آخرکار میر کرم علی خان اور پورا دربار اس بات پر متفق ہوا کہ انگریز سرکار سے مدد لی جائے اور اس کے لیے آغا اسمعٰیل شاہ جو ملک کے باہر کے مسائل حل کرنے پر معمور تھا، بمبئی کے گورنر ماؤنٹ اسٹوراٹ ایلفن اسٹون کے پاس ایلچی بنا کر بھیجا گیا اور شمال میں سرحد کی حفاظت کے لیے 30 ہزار کا لشکر جنگی سامان کے ساتھ بھیجا گیا جو شکارپور پہنچا۔

سندھ کے امیروں کی یہ حکمت عملی ایک مثبت اور سنجیدہ فیصلہ تھا کہ یہ بات دونوں طرف پہنچنی چاہیے کہ گوری سرکار اور رنجیت سنگھ سے اگر بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہوا تو جنگ ہوگی۔ کہتے ہیں کہ سانپ کا زہر نہیں اس کا خوف مارتا ہے۔ جب تک جنگی لشکر موجود ہو اور جنگ لڑنے کے لیے میدان میں موجود ہو تو سامنے والے کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور ضرور کرتا ہے۔

آغا نے بمبئی کے گورنر کو حالات سے تفصیلی آگاہی دی۔ بمبئی کے گورنر نے یہ احوال تحریر کی صورت میں کلکتہ بھیجا۔ وہاں کے گورنر جنرل نے لدھیانہ کے برٹش پولیٹیکل ایجنٹ کپتان ویڈ کو تحریر کی صورت میں ہدایات دیں کہ ’خالصہ سرکار تک یہ بات پہنچائی جائے کہ سندھ پر حملہ کرنے کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ سندھ کے امیروں سے برٹش سرکار کے دوستانہ تعلقات ہیں، ایسا عہدنامہ ہم سندھ سے کر چکے ہیں’۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔

ان ہدایات کے بعد رنجیت سنگھ نے فوری رنگ بدلا اور برٹش سرکار کو یقین دلایا کہ ’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ میں سندھ پر حملہ کروں گا۔ میں خود تالپوروں کو اپنا دوست سمجھتا ہوں۔ جہاں تک توپوں کے مظاہرے کا تعلق ہے تو میرا پوتا نو نہال سنگھ تفریح کرنے کے لیے ملتان، مٹھن کوٹ و دیرہ جات کی طرف دسہرے کے دن شغل میلہ کرنے گیا تھا’۔

ساتھ ہی ملتان کے گورنر دیوان سانون مل نے بھی ایک دوستانہ خط لکھ کر حیدرآباد بھیجا جس میں رنجیت سنگھ سے پرانے روابط اور واسطوں کی بات تحریر تھی۔ دیوان سانون مل کے ہاتھوں تحریر کیا ہوا یہ خط سندھ کے امیروں کو شکارپور میں پہنچا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ ایک آفت ان کے سر سے ٹلی اور وہ حیدرآباد لوٹ آئے۔

رنجیت سنگھ والی پریشانی سے ابھی تالپوروں نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ شاہ شجاع نے پھلیلی کے کنارے آکر شامیانے لگائے۔ اس دلچسپ ذکر سے پہلے ہم شاہ شجاع کے متعلق کچھ اور بات بھی کریں گے کیونکہ یہ آنے والے وقتوں 1834ء میں افغانستان کا پھر سے بادشاہ بننے والا ہے۔

رنجیت سنگھ کی قید سے شاہ شجاع کا چھپ کر بھاگنا، فیروز پور سے لدھیانہ پہنچنا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں گوری سرکار کی اندرونی مدد شامل تھی۔ کمپنی سرکار دکھاوے کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی مگر اندرونی طور پر وہ دیے گئے روڈ میپ پر ہی عمل کرتی تھی۔

انگریز آج میں بیٹھ کر 100 برس آگے کی سوچ رکھنے والا جتھا تھا۔ اس لیے اس خطے میں آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا تھا، اس کے لیے کمپنی سرکار نے سیاسی شطرنج کی بساط بچھا دی تھی اور اس پر وقت کے ساتھ مہرے جمانے کا وقت تھا جس میں شاہ شجاع ایک اہم مہرا تھا۔

تخت و تاج کی بھی عجیب دیوانگی ہے جس نے بھی اس کی حاکمیت اور غرور کا ذائقہ چکھا، وہ اپنی آخری سانس تک اس دیوانگی میں مبتلا رہتا ہے اور یہاں اتفاق یہ ہوا کہ شاہ شجاع کی دیوانگی کو حیات دینے کے لیے سندھ کے وسائل کی آمدنی نے مدد کی یا زبردستی یہ مدد لی گئی۔

1820ء میں جب پیسے کم پڑنے لگے تو شاہ شجاع، درگاہ شہباز قلندر پر حاضری دینے کے بہانے پہنچ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سیہون تک آئے ہیں تو حیدرآباد کتنا دور ہے! اور حیدرآباد آ نکلتے ہیں۔

آنے سے پہلے سیاسی حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ آج کل میں خراسان کے سرداروں، سردار محمد عظیم خان اور سردار دوست محمد خان نے اپنے بھائیوں کے ساتھ شاہ شجاع کو حکومت دینے کا سوچ رہے ہیں۔ اس لیے شاہ شجاع جیسے ہی حیدرآباد دریائے سندھ کے پھلیلی بہاؤ کے کنارے شامیانے لگاتے ہیں، میر صاحبان اس کی خدمت میں جٹ جاتے ہیں کہ کسی حوالے سے کوئی کمی نہ رہ جائے۔

تالپوروں نے اپنے اندر چھپے ہوئے اس خوف اور ڈر کا کبھی تدارک نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ خود تو پریشان رہتے ہی تھے اور اس بے خبری کی وجہ سے سندھ کی سرحدیں سکڑنے لگی تھیں۔ شاہ شجاع میروں سے ایک معاہدہ کرنا چاہتا تھا کہ ’میر اور وہ ایک طاقت ہوں گے۔ جب بھی اس پر مشکل وقت آئے گا تو میر فوری مدد کریں گے’۔ حیدرآباد کے میر تو یہ معاہدہ کرنے پر آمادہ تھے مگر خیرپور کے میروں میں سے میر سہراب خان نے اس کی شدید مخالف کی اور یہ معاہدہ نہ ہو سکا۔

یہ یقیناً، شاہ شجاع کے لیے مایوس کُن صورت حال تھی۔ ایسی صورت حال میں انہیں دو برس تک شکارپور میں ہی رہنا پڑا۔ اور فوج و جنگی سامان تیار کرنے میں مصروف رہا۔ شکارپور کے ’ہزاری دروازے‘ کے باہر، ہفتے میں دو بار فوجی پریڈ ہوتی تھی اور توپیں چلائی جاتی تھیں تاکہ خوف کا ماحول بنا رہے۔ خراسان کا بھگوڑا بادشاہ جس کے پاس تخت تھا، نہ تاج مگر وہ خوف کی آندھیوں کو تخلیق کرنے کا ماہر تھا اور اس خوف سے ہی اس کی عیاشیاں پوری ہوتیں اور شاندار خوراک سے اپنا شکم بھرتا تھا۔

میر صاحبان نے اس صورت حال سے بیزار ہوکر اس مصیبت سے جان چھڑوانے کے لیے دوسری مصیبت اپنے گلے میں خوشی خوشی ڈال لی۔ انہوں نے خراسان کے بادشاہ ’سردار محمد عظیم خان‘ کی طرف اپنے ایلچی سید کاظم علی شاہ کو ایک خط کے ساتھ بھیجا۔

خط کا آخری جملہ کچھ اس طرح تحریر تھا، ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ اپنی فوج سمیت شکارپور آجائیں تو ہم دونوں مل کر اس شاہ شجاع سے جان چھڑائیں اور اسے اس طرف بھگادیں جس طرف سے وہ آیا ہے۔ آپ کو راہ کے خرچہ کے علاوہ خراج بھی دیا جائے گا جس کی آپ بالکل بھی کوئی پریشانی نہ لیں’۔

سفیر کو خراسان بھیجنے والی بات، شاہ شجاع کو اچھی نہیں لگی کیونکہ خط ملتے ہی سردار عظیم خان نکل پڑا تھا۔ یہ 1821ء تھا اور شاہ شجاع، جیسلمیر کے راستے سے لدھیانہ چلا گیا۔ مگر شکارپور کے نصیب میں سکھ لکھا ہی نہیں تھا۔ وہ گیا تو شاہی باغ میں آکر سردار عظیم نے شامیانے لگائے۔

وہی تھکان اتارنے کے لیے مطربوں کی شیریں آوازیں فضا میں گھلنے لگیں۔ تھکان اتری تو خراج لے کر سردار جیکب آباد اور سبی کے راستے سے خراسان روانہ ہوا۔ روانگی سے پہلے شکارپور میں ’سردار شیر خان‘ کو اپنی طرف سے گورنر مقرر کیا۔

فی الوقت تو شاہ شجاع لدھیانہ چلا گیا ہے مگر وہ ایک بار پھر 1832ء میں سندھ کے امیروں سے، اسے شکارپور سے بھگانے کا بدلہ لینے ضرور آئے گا۔

اب ہم آ پہنچے ہیں کمپنی سرکار اور سندھ کے امیروں کے درمیان تیسرے معاہدے کرنے کے دنوں میں۔ چیتن لال ماڑیوالا ہمیں بتاتے ہیں، ’ان برسوں میں ننگرپارکر ڈاکوؤں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ یہاں کے کھوسے ان دنوں اس حوالے سے بہت مشہور تھے۔ جو کَچھ بھُج اور اطراف کی آبادیوں کو لوٹتے پھرتے تھے جس کی وجہ سے انگریز سرکار نے ان کے خلاف کارروائیاں کرنا شروع کر دی تھیں اور کَچھ کی سرحد پر اپنی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دی تھیں۔

’ان ڈکیتیوں کے حوالے سے کمپنی سرکار اور سندھ سرکار میں بات چیت بھی ہوتی رہتی تھی۔ آخر تالپوروں نے اپنی فوج ننگر پارکر سے آگے سرحد پر بھیجی کہ وہ کھوسوں کی کارروائیوں کو روک سکے۔ مگر پھر کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر لیفٹیننٹ کرنل برکلی نے یہ محسوس کیا کہ تالپوروں کی فوج کھوسوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کی مدد کرنے آئی ہے۔

بہرحال ایک رات کرنل برکلی نے کھوسوں کے جتھے پر حملہ کیا جس میں سندھ حکومت کے کچھ سپاہی بھی مارے گئے جس کی وجہ سے سندھ کے سپاہی واپس حیدرآباد لوٹے اور سندھ کے حکمرانوں نے کمپنی سرکار سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی سرکار نے سرحد پار کرکے ہمارے لوگوں پر حملہ کیا ہے جو کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے’۔

کرنل برکلی کے حملے کا بدلہ لینے کے لیے سندھ کے حکمرانوں نے ایک طاقتور فوج کا جتھا روانہ کیا جس نے کَچھ کی سرحد میں داخل ہو کر بھج سے 50 کوس دور ایک بستی لونا پر حملہ کیا اور اطراف میں جو چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں، ان کو بھی لوٹ لیا۔ کمپنی سرکار تک یہ خبر پہنچی کہ سندھ نے کَچھ پر حملہ کر دیا ہے۔ اس کے بدلے کے لیے بٹالین بھیجی گئی مگر تالپوروں کی بھیجی گئی فوج واپس سندھ لوٹ آئی۔

کمپنی سرکار نے اس حرکت کا تاوان طلب کیا اور ساتھ میں یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تاوان نہ دیا گیا تو فوج کی پوری ڈویژن سندھ کی طرف بھیجی جائے گی۔ سندھ کے حکمرانوں نے کہا زیادتی کمپنی سرکار کی طرف سے ہوئی ہے اور بات چیت کے لیے دو وفد ایک بُھج اور دوسرا بمبئی بھیجا۔ ان کے درمیان بات چیت باتوں تک ہی محدود رہی، مسئلے نے زیادہ طُول نہیں پکڑا۔ مگر یہ ضرور ہوا کہ کمپنی سرکار نے کہا کہ اب نیا معاہدہ ہوگا اس لیے ہم اپنا وفد سندھ بھیج رہے ہیں۔

انگریز سرکار کا وفد جس میں کیپٹن سیڈلیئر (Captain Sadlier)، ڈبلیو سائمن (Mr. W. Simon)، ڈاکٹر ہال (Dr. Hall) اور میجر ووڈ ہاؤس (Mejor Woodhouse) شامل تھے، کَچھ کے راستے سے سندھ میں داخل ہوئے۔ سرحد پر تالپوروں کے نمائندوں نے ان کا شاندار استقبال کیا جبکہ وفد بھی حاکموں کے لیے تحفے تحائف لایا تھا جو کہ سفارتکاری کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔

بات چیت کے بعد 9 نومبر 1820ء کو تیسرا عہدنامہ تحریر کی صورت میں آیا جو کُچھ اس طرح تھا۔

جب میجر اسکین بات چیت اور معاہدے کے بعد وفد کے ساتھ بمبئی کے لیے روانہ ہوا تو ساتھ میں سندھ کے آغا اسمعٰیل شاہ بھی سندھ کے نمائندے کے طور پر موجود تھے کیونکہ سندھ کے امیروں کی طرف سے آغا کو باوقت ضرورت بات کرنے کے اختیار دیے گئے تھے۔ بمبئی پہنچنے کے بعد آغا نے بمبئی کے گورنر کو معاہدے کی تحریر کے کاغذات پیش کیے جن کی مرکزی حکومت کی طرف سے 10 فروری 1821ء کو مہر لگا کر تصدیق کی۔

اس معاہدے کے بعد سندھ اور بمبئی کے درمیان بیوپار یا سفر کے دوران جو تکالیف تھیں وہ فی الوقت ختم ہوگئیں اور بیوپار میں مثبت پڑھوتری ہوئی۔ لیکن یہ سب وقتی تھا۔ ننگر پارکر کے کھوسے ڈاکے ڈالنے کی روش زیادہ عرصے تک ترک نہ کر سکے۔ میں آپ کو کھوسہ جو بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بلوچستان سے یہاں ننگرپارکر کیسے پہنچے اس پہیلی کو سلجھانے کے لیے چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں۔

سلطان محمود غزنوی نے 1030ء میں وفات پائی جس سے 6 برس پہلے یعنی 1024ء میں اس نے سومناتھ کے مندر پر حملہ کیا۔ اس وقت بھی موجودہ کَچھ جو رن کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ سمندر کی یہاں حکمرانی تھی۔ غزنوی سومناتھ پر حملہ کرنے کے بعد واپسی پر جب ننگر پارکر پہنچا اور پہاڑیوں کے دامن میں ایک تالاب کو دیکھا جسے مقامی لوگ بھوڈیسر تالاب کے نام سے پکارتے تھے۔

یہ تالاب اب بھی ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ وہ اس بھوڈیسر تالاب کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر دو دن تک یہاں رہا۔ اس کے 202 برس کے بعد یعنی 1226ء میں ایک زلزلے کی وجہ سے زمین اتھل پُتھل ہوئی، سمندر والی زمین اوپر آنے کی وجہ سے سمندر پیچھے چلا گیا اور اسی طرح رن آف کَچھ وجود میں آیا۔

ننگر پارکر میں محمود شاہ بیگڑہ اور یہاں کے سوڈھوں کے درمیان جنگ بھی اس قدیم تالاب کے کنارے پر لگی تھی۔ گجرات کے پہلے مسلمان حاکم مظفر شاہ کو اس کے پوتے احمد شاہ نے 1410ء میں زہر دے کر مار ڈالا اور وہ تخت پر بیٹھ کر گجرات کا حاکم بنا۔ ’احمد آباد‘ شہر کی بنیاد اس نے رکھی۔

اس کے بعد اس کا بیٹا ’محمود شاہ‘ تخت پر بیٹھا (حکومت 1458ء سے 1511ء) جو ’بیگڑہ‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔ اس لفظ کے متعلق بہت ساری باتیں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں۔ اس کو ’بیگڑہ‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس نے راجپوتوں کے دو قلعے ’گرنار‘ اور ’پاوا گڈھ‘ ساتھ جیتے تھے اس لیے دو قلعوں کو جیتنے کی وجہ سے یہ نام پڑا۔ ’جہانگیر‘ اپنی توزک میں لکھتا ہے کہ ’اہل گجرات زبان میں بیگڑہ خمدار موچھوں کو کہتے ہیں’۔

محمود شاہ جب گجرات کے حاکم تھے، اس وقت سندھ پر سمہ سرداروں کی حکومت (1350ء سے 1520ء) تھی، سمہ حکمرانوں کو گجرات کی طرف سے ہمیشہ حملہ کا ایک ڈر لگا رہتا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے انہوں نے بلوچوں کے 4 ہزار کے قریب خاندانوں کو ننگرپارکر میں بسایا تھا۔ ان کا زیادہ گزر بسر کا ذریعہ مال مویشی تھے۔ وہ بارشوں کے موسم میں مویشی چرانے رادھن پور اور پالن پور تک چلے جاتے تھے اور ضرورت پڑنے پر وہ بیوپاری قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے۔

پھر مقامی سوڈھے اور بلوچ مل کر یہ لوٹ مار کرتے مگر پھر یہ لوٹ مار اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ احمد آباد اور پارکر کے بیچ میں بیوپاری قافلوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔ تب ان شکایات کو سامنے رکھ کر سلطان محمود نے ملک جلال الدین کو ’کوتوال‘ مقرر کیا جس نے پارکر پر حملہ کرکے 500 کے قریب ڈاکوؤں کو پکڑ لیا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس عمل نے ان پر الٹا اثر کیا اور انہوں نے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو اور تیز کر دیا جس کی وجہ سے حالات ملک جلال الدین کے قابو سے باہر ہوگئے۔

آخر حالات اتنے بگڑے کہ 1504ء میں اپنے زبردست توپ خانے کے ساتھ شاہ محمود نے پارکر پر حملہ کیا۔ مقامی بلوچوں اور سوڈھوں کا 24 ہزار کا لشکر تھا مگر توپ خانے کی وجہ سے ان میں ڈر بیٹھ گیا اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور بیگڑہ نے پارکر پر قبضہ کرلیا۔ مگر یہ لوٹ مار بند نہ ہو سکی۔

پھر تیسری بار 1505ء میں محمود شاہ نے پارکر بھوڈیسر پر حملہ کیا اور ایک خونی معرکہ ہوا جس میں کئی سلطان کے لوگ اور مقامی سوڈھوں کا خون بہا۔ مگر کچھ وقت کے بعد سوڈھوں اور کھوسوں نے پھر سے لوٹ مار شروع کردی۔ یہاں تک کہ بات جو سمہ سرکار سے چلی تھی وہ کمپنی سرکار تک آ پہنچی۔

یہ لہو کی لکیر جو سمہ دور سے شروع ہوئی تھیں، وہ 19ویں صدی تک آ پہنچی تھی۔ یہ اور دیگر ایسی پریشانیاں سندھ کے امیروں کے لیے اپنے پر تول رہی تھیں۔ گوری سرکار کی پارلیمنٹ اجلاسوں میں دھینگا مشتی زوروں پر تھی۔

ہندوستان کے لیے جو نیا گورنر جنرل آتا وہ نئی ہدایات لے کر آتا، اس لیے پہلے والے گورنر جنرل کی پالیسیز کو ایک طرف رکھ کر وہ اپنے تجربات اور سوچ کے مطابق نئی پالیسیز لاگو کرتا اور ہندوستان میں پہلے گورنر جنرل والا منظرنامہ تبدیل ہونے لگتا۔

خیر ہم تو محض دیکھنے اور سننے والوں میں شامل ہیں۔ جلد ہی لوٹتے ہیں وقت کی گزری ان پگڈنڈیوں کی ٹیڑھی گزارگاہوں پر۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔