سپریم کورٹ رجسٹرار کا 26ویں ترمیم کیخلاف فل کورٹ سماعت کی درخواست پر اعتراض، مصطفیٰ کھوکھر نے اپیل کردی
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کے معاملے میں تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان (ٹی ٹی اے پی) کے وائس چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کر دی۔
تفصیلات کے مطابق سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی، ان کی پٹیشن واپس کر دی گئی تھی جس میں اُنہوں نے اپنی درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والے مقدمات کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
یاد رہے کہ 21 اکتوبر 2024 کو منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات ختم کر دیے تھے اور ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ سینیئر ترین جج کو لازمی چیف جسٹس بنانے کے بجائے 3 سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو اگلا چیف جسٹس نامزد کرے۔
سپریم کورٹ اس وقت متعدد درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے جن میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ معاملہ 26ویں ترمیم کے تحت بنائے گئے آئینی بینچ کے بجائے فل کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے، آئینی بینچ 7 اکتوبر کو اصل اپیلوں پر کارروائی دوبارہ شروع کرے گا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایکس پر لکھا کہ ’میں نے رجسٹرار کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے جس میں میری پٹیشن واپس کی گئی تھی، اور ایک بار پھر انصاف کا طلبگار ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اکثریتی فیصلہ بدستور قانوناً درست ہے اور 26ویں ترمیم سے متعلق کیسز صرف فل کورٹ ہی سن سکتا ہے۔
یہ اپیل، ایڈووکیٹ شاہد جمیل خان کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ 19 ستمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے اور مذکورہ پٹیشن کو قانون کے مطابق رجسٹر اور سماعت کے لیے منظور کرے۔
یہ درخواست سپریم کورٹ رولز کے رول 3 کے تحت دائر کی گئی اور رجسٹرار آفس کو فریق نامزد کیا گیا۔
اپیل میں کہا گیا کہ رجسٹرار کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے، کیونکہ ایسے سوالات صرف معزز عدالت اپنے عدالتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہی طے کر سکتی ہے۔
اس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چاہے کوئی پٹیشن آئین، قانون یا سپریم کورٹ رولز کے تحت ناقابلِ سماعت معلوم ہو، یہ معاملہ لازمی طور پر عدالت کے سامنے عدالتی سطح پر فیصلہ کے لیے رکھا جانا چاہیے۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ انتظامی سطح پر کام کرنے والا رجسٹرار عدالتی اختیارات استعمال نہیں کر سکتا، اور نہ ہی وہ کسی پٹیشن یا اپیل کو رجسٹر کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر سکتا ہے کہ وہ قابلِ سماعت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے اکتوبر 2024 میں بنائی گئی کمیٹی کے اُس فیصلے کو نظرانداز کیا تھا جس میں 26ویں ترمیم کے خلاف چیلنجز کو فل کورٹ کے سامنے لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
یہ کمیٹی 31 اکتوبر 2024 کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ (پی پی اے) 2023 کے تحت تشکیل دی گئی تھی جس کی صدارت پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کی تھی۔
تاہم چیف جسٹس آفریدی، جو کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے جواب دیا کہ وہ فل کورٹ سماعت کو مناسب نہیں سمجھتے۔
20 مئی 2025 کی علیحدہ میٹنگ کی کارروائی میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ بامعنی مشاورت ناگزیر ہے، جو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا بنیادی مقصد ہے، انہوں نے کہا تھا کہ رجسٹرار کو اختیارات منتقل کرنا اس ایکٹ میں شامل نہیں ہے۔
اکتوبر 2024 سے اب تک متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں جن میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ ترمیم ’آئین کی بنیادی خصوصیات کو منسوخ، منہدم اور تبدیل کرتی ہے‘ اور بنیادی حقوق کی ’خلاف ورزی‘ کرتی ہے۔
منگل کو 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت 8 رکنی آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں دوبارہ شروع کرے گا۔
بینچ میں دیگر ججز میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔