پاکستان

چند روز کی تلخیوں کے بعد حکمران اتحادی تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف

حکمران جماعت کی اے ٹیم کی صدر زرداری سے نوابشاہ میں ملاقات، تنازع اسکرپٹڈ نہیں، سنگین نوعیت کا ہے، جن قوتوں نے اتحاد کرایا تھا وہ اسے ٹوٹنے نہیں دیں گی، ذرائع

گزشتہ چند روز سے سیاسی حلقوں اور مبصرین (چاہے وہ پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا باہر) ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا حکمران اتحادیوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری کشیدگی واقعی حقیقی ہے یا پھر ایک طے شدہ (اسکرپٹڈ) تنازع؟

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اس بات پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان یہ کشیدگی کس بات سے شروع ہوئی، لیکن بدھ کی شب پیش آنے والے واقعات نے یہ واضح کر دیا کہ اختلاف اتنا بڑھ چکا ہے کہ حکمران جماعت کو صدر آصف علی زرداری کو منانے کے لیے اپنی ’اے ٹیم‘ بھیجنا پڑی۔

اسلام آباد میں موجود ذرائع نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ایک وفد خصوصی طیارے کے ذریعے شہید بینظیر آباد (نوابشاہ) روانہ ہوا ہے۔ بعد ازاں ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے بدھ کی شب صدر سے ملاقات کی۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، جنہیں اس سے قبل صدر کی طلبی پر کراچی بھیجا گیا تھا، وہ بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔

یہ پیش رفت اس اعلان کے فوراً بعد سامنے آئی کہ پیپلز پارٹی اپنی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس 18 اکتوبر کو بلائے گی تاکہ ملک کی سیاسی صورتحال پر غور کیا جا سکے۔

یہ اجلاس سانحہ کارساز کی برسی کے روز بلایا جا رہا ہے، جب 2007 میں بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے جلوس پر حملہ ہوا تھا، اور اس بات کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے، کیونکہ خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اس اجلاس میں کوئی اہم فیصلہ کر سکتی ہے۔

اگرچہ ایوان صدر یا حکومتی نمائندوں نے ملاقات کی تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ صدر زرداری سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے وفد بھیجنے کا فیصلہ نواز شریف کی منظوری سے ہوا، جنہیں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر آمادہ کیا تھا۔

اختلاف کی جڑ

پی ایم ایل (ن) کے وفد کے نوابشاہ روانہ ہونے سے قبل دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے پسِ منظر میں ہونے والی بات چیت سے واضح ہوا کہ تنازع واقعی سنگین نوعیت کا ہے اور ’کسی اسکرپٹ‘ کا حصہ نہیں۔

(ن) لیگی کیمپ کا مؤقف تھا کہ بحران اس وقت شروع ہوا جب پیپلز پارٹی نے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کو نشانہ بنایا۔

ایک پارٹی رہنما نے کہا کہ ’مریم نواز ہماری ریڈ لائن ہیں‘۔

تاہم، (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما کے مطابق چونکہ جماعت سیاسی طور پر بالغ ہے، اس لیے وہ معاملات کو سلجھانے کے لیے ہر ممکن لچک دکھانے کو تیار ہے، اور یہی اس وقت ہو رہا ہے۔

دوسری جانب، پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ بلاوجہ حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، حالانکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کی صرف ایک عملی تجویز پیش کی گئی تھی۔

ایک پی پی رہنما نے کہا کہ اس حد تک کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز خود میدان میں آگئیں اور جان بوجھ کر چولستان کے پانی کی 6 نہروں والے متنازع مسئلے کو چھیڑ دیا۔

ایک اور پی پی رہنما کے مطابق حالیہ دنوں میں ’زبانی جھڑپوں’ میں اضافہ پارٹی کے اس مؤقف کو ظاہر کرتا ہے کہ (ن) لیگ کے سخت لہجے کا جواب دینا ضروری ہے۔

تاہم، ذرائع کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جان بوجھ کر اس معاملے سے فاصلہ اختیار کیا ہوا ہے، اگرچہ وہ تمام پیش رفت پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

آگے کا راستہ

ان کشیدگیوں کے دوران، پیپلز پارٹی کو مختلف حلقوں سے تجاویز موصول ہو رہی ہیں کہ وہ مرکز میں (ن) لیگ کی حمایت پر نظرِ ثانی کرے، حتیٰ کہ یہ تجویز بھی دی گئی کہ پیپلز پارٹی، جس کی پنجاب اسمبلی میں لگ بھگ ایک درجن نشستیں ہیں، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جائے۔

تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے امکانات کم ہیں، کیونکہ جن طاقتوں نے یہ اتحاد کرایا تھا وہ اسے ٹوٹنے نہیں دیں گی۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی (ن) لیگ کے زیرِ اثر رہنے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا زیادہ پسند کریں گے، لیکن وہ اس صورتحال کو ’چاچا-بھتیجی کی چپقلش‘ کے طور پر پیش کر کے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پِلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق دونوں جماعتیں ماضی میں بھی سخت حریف رہ چکی ہیں اور اگلے انتخابات میں پھر ایک دوسرے کے مقابل آسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بار تنقید کی شدت زیادہ ہے، اور یہاں تک کہ بلاول اور مریم دونوں براہِ راست شامل ہو چکے ہیں۔

ان کے مطابق، مریم نواز کی سیلاب کے معاملے پر غیر معمولی سرگرمی نے سندھ کے رہنماؤں میں مسابقت اور کسی حد تک حسد کا احساس پیدا کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں کے درمیان یہ مقابلہ صحت مند ہے، لیکن اگر زبان زیادہ تلخ ہو جائے تو اس سے بین الصوبائی تعلقات پر دیرپا اثرات پڑ سکتے ہیں، تاہم آصف زرداری اور نواز شریف کی مداخلت سے کسی نہ کسی قسم کا ‘سیز فائر’ متوقع ہے۔

ان کے مطابق پیپلز پارٹی خود کو ایک حقیقی اپوزیشن کے طور پر پیش کر کے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بھی اسی نکتے کی تائید کی، ان کے مطابق پیپلز پارٹی یہ سب پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر دبانے کے لیے کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ اچھا موقع ہے کہ وہ خود کو (ن) لیگ کی اپوزیشن کے طور پر پیش کرے، اس طرح وہ دو مقاصد حاصل کر سکتی ہے، ایک اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنا اور دوسرا پنجاب میں پی ٹی آئی کے کچھ ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنا۔