شہباز شریف اور اسحٰق ڈار آج مصر میں ہونیوالے ’امن سربراہی اجلاس‘ میں شرکت کریں گے
وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار آج مصر کے شہر شرم الشیخ میں اہم امن کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے ہیں، جہاں وہ دنیا کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ غزہ میں جاری طویل اور سنگین تنازع کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط میں شریک ہوں گے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف یہ دورہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر کر رہے ہیں، جو اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے۔
مصری صدر کے دفتر نے بتایا کہ بحیرۂ احمر کے ساحلی شہر میں ہونے والے اس اجلاس میں ’20 سے زائد ممالک کے رہنما‘ شرکت کریں گے۔
جن رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے، ان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی، اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس شامل ہیں۔
یہ اجلاس اُن مرکزی فریقین یعنی اسرائیل اور حماس کی غیر موجودگی میں منعقد ہوگا، جو براہِ راست جنگ میں ملوث ہیں، جو اس اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی ترجمان شوش بیدروسیان نے اتوار کو ’اے ایف پی‘ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ کوئی اسرائیلی عہدیدار اجلاس میں شریک نہیں ہوگا۔
اسی طرح حماس نے بھی اپنی عدم شرکت کی تصدیق کی ہے، حماس کے سیاسی دفتر کے رکن حسام بدران نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ فلسطینی گروپ ’براہِ راست شامل نہیں ہوگا‘، انہوں نے کہا کہ حماس نے ماضی میں قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔
امن معاہدہ ایک محتاط طریقے سے طے شدہ قیدیوں کے تبادلے پر منحصر ہے، جن میں وہ اسرائیلی قیدی شامل ہیں، جو 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے کے دوران پکڑے گئے تھے، اور وہ فلسطینی جو اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
دونوں فریقین نے تصدیق کی ہے کہ یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ آج (پیر) صبح کے وقت عمل میں لایا جائے گا، حماس نے دوپہر کی آخری مہلت سے قبل اعلان کیا کہ اس نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں تاکہ زندہ اور جاں بحق قیدیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جا سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پہلے کہا تھا کہ اسرائیل تمام قیدیوں کو فوری طور پر وصول کرنے کے لیے تیار ہے، ان کے دفتر نے مزید کہا کہ فلسطینی قیدیوں کو اس وقت رہا کیا جائے گا جب اسرائیل کو تصدیق مل جائے کہ ہمارے تمام قیدی سرحد پار اسرائیل میں پہنچ چکے ہیں۔
دریں اثنا، جنگ بندی نے بےگھر شہریوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کو ممکن بنایا ہے، اتوار کو تیسری روز بھی جنگ بندی برقرار رہی اور لاکھوں فلسطینی ملبے میں تبدیل ہو چکے غزہ شہر کی طرف واپس لوٹے۔
حماس کے زیرِ انتظام سول ڈیفنس ایجنسی نے بتایا کہ 5 لاکھ سے زائد افراد واپس آئے ہیں۔
’اے ایف پی‘ کی ڈرون فوٹیج میں تباہی کے دل دہلا دینے والے مناظر دکھائے گئے، جہاں پوری کی پوری عمارتیں ملبے اور مڑتی ہوئی فولادی سلاخوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔
آج کے اجلاس کی سفارتی تیاریوں کا آغاز ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ہوا جب پاکستان کے وزیراعظم نے 7 عرب و اسلامی ممالک، مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور ترکیہ کے رہنماؤں کے ساتھ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، تاکہ غزہ میں امن کے راستے تلاش کیے جا سکیں۔
اس ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں رہنماؤں نے ٹرمپ کی کوششوں کا خیرمقدم کیا اور امریکا کے ساتھ مل کر پائیدار جنگ بندی اور انسانی بحران کے حل کے لیے کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
عبدالفتح السیسی کے دفتر کے مطابق، اجلاس کا مقصد غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے، مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کے قیام اور علاقائی سلامتی کے نئے دور کا آغاز ہے۔
اتوار کو مصری وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ’غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کی ایک دستاویز‘ اس تاریخی اجلاس میں دستخط کے لیے تیار ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کا مقصد امن و سلامتی کے ایک نئے باب کا آغاز اور غزہ کے فلسطینی عوام کی تکالیف میں کمی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی شرکت کو فلسطینی عوام کے جائز مقصد کے لیے پاکستان کی تاریخی، مستقل اور غیر متزلزل حمایت کا مظہر قرار دیا۔
بیان کے مطابق پاکستان کو امید ہے کہ اجلاس اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی شہریوں کے تحفظ، ان کی بے دخلی کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، انسانی بحران کے ازالے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
تاہم، اگرچہ حماس نے معاہدے کے ابتدائی مرحلے پر اتفاق کیا ہے، جس کے تحت 48 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 250 فلسطینی قیدی اور جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے مزید ایک ہزار 700 غزہ کے باشندوں کو رہا کیا جائے گا، مگر دوسرے مرحلے پر اب بھی اختلافات باقی ہیں۔
حماس کے عہدیدار اسامہ حمدان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ قیدیوں کا تبادلہ پیر کی صبح طے شدہ منصوبے کے مطابق شروع ہوگا۔
تاہم، پائیدار امن کے لیے چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔
حماس کے سینئر رہنما حسام بدران نے کہا کہ منصوبے کا دوسرا مرحلہ، جس میں گروپ کا غیر مسلح ہونا شامل ہے، بہت سی پیچیدگیوں اور مشکلات پر مشتمل ہے۔
ایک اور حماس عہدیدار نے پہلے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ گروپ کا غیر مسلح ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔
مذاکرات سے واقف ایک حماس ذرائع نے اتوار کو بتایا کہ اسلامی تحریک جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی میں حصہ نہیں لے گی، لیکن اس نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے تانے بانے کا ایک بنیادی حصہ بنی رہے گی۔
ایسے وقت میں جب قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو رہا ہے، اسرائیل اپنے اگلے اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے اتوار کو کہا تھا کہ فوج امریکی قیادت میں قائم ایک بین الاقوامی نظام کے تحت حماس کے باقی ماندہ سرنگوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، کاٹز نے سرنگوں کے خاتمے کو اسرائیل کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔