علی امین گنڈاپور کے استعفے میں تضاد، گورنر خیبر پختونخوا نے دستخطوں پر سوال اٹھا دیا
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جب گورنر فیصل کریم کنڈی نے دستخطوں میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے استعفے کی صداقت پر سوال اٹھا دیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کا معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا ہے، جب گورنر فیصل کریم کنڈی نے دستخطوں میں فرق ہونے کی وجہ سے علی امین گنڈا پور کے دو استعفے واپس کر دیے ہیں اور انہیں 15 اکتوبر (بدھ) کو گورنر ہاؤس میں طلب کر لیا ہے تاکہ معاملہ حل کیا جا سکے۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب آج صبح 10 بجے خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے ایجنڈے کے ساتھ طلب کیا گیا ہے۔
اتوار کی رات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کا استعفیٰ اعتراض کے ساتھ واپس کر دیا گیا ہے‘۔
انہوں نے ایک خط بھی جاری کیا جو علی امین گنڈاپور کے نام تھا، اس میں بتایا گیا کہ گورنر ہاؤس کو 8 اور 11 اکتوبر کو دو استعفے موصول ہوئے، لیکن دونوں پر دستخط ایک جیسے نہیں تھے۔
خط میں لکھا گیا کہ چونکہ میں شہر سے باہر ہوں اور 15 اکتوبر کی شام پشاور واپسی کا ارادہ رکھتا ہوں، لہٰذا آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ 15 اکتوبر کو سہ پہر 3 بجے گورنر ہاؤس تشریف لائیں تاکہ مبینہ استعفوں کی صداقت کی تصدیق کی جا سکے اور معاملے کو آئینِ پاکستان کے مطابق حل کیا جا سکے۔
دوسری جانب علی امین گنڈاپور نے ’ایکس‘ پر گورنر کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’آخرکار 8 اکتوبر کو جمع کرایا گیا وہ استعفیٰ، جسے پہلے گورنر آفس نے مسترد کیا تھا، تسلیم کر لیا گیا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دونوں استعفوں پر ان کے اصلی دستخط موجود ہیں۔
استعفے کا تنازع
8 اکتوبر کو علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا تھا کہ وہ صوبائی چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں، جب کہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے تصدیق کی تھی کہ چیئرمین عمران خان نے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ مقرر کرنے کی ہدایت دی ہے۔
علی امین گنڈاپور کی جانب سے ’ایکس‘ پر شیئر کیا گیا استعفے کا خط ان کے سرکاری لیٹرہیڈ پر ٹائپ شدہ اور دستخط شدہ تھا، تاہم یہ ابتدائی استعفیٰ بظاہر انتظامی پیچیدگیوں میں گم ہو گیا اور گورنر ہاؤس نے اس کی وصولی سے انکار کر دیا۔
11 اکتوبر کو گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ گورنر ہاؤس کو علی امین گنڈاپور کا ایک دستی تحریر شدہ استعفیٰ موصول ہوا ہے، آئین اور متعلقہ قوانین کے تحت تفصیلی جانچ کے بعد یہ استعفیٰ مناسب وقت پر پراسیس کیا جائے گا۔
اس سے ایک دن قبل پی ٹی آئی کے ایک پارلیمانی وفد نے اسلام آباد میں گورنر فیصل کریم کنڈی سے ملاقات کی تھی، وفد میں اسد قیصر، عاطف خان، جنید اکبر اور دیگر شامل تھے۔
پی ٹی آئی کے نمائندوں نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے پیپلز پارٹی سے تعاون مانگا تھا، ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ جمہوری روایات کو اہمیت دینے کا دعویٰ کرتی آئی ہے۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا تھا کہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ آئینی تقاضوں کے مطابق قبول کیا جائے گا، انہوں نے صوبے میں امن اور عوامی خدمات کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔
نئے وزیراعلیٰ کے لیے چار امیدوار میدان میں
اتوار کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کے پاس چار امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔
کاغذات جمع کرانے والوں میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی، جے یو آئی (ف) کے مولانا لطف الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے سردار شاہ جہان یوسف اور پیپلز پارٹی کے ارباب زَرک خان شامل ہیں۔
اسمبلی اسپیکر بابر سلیم سواتی نے جانچ پڑتال کے بعد تمام امیدواروں کے کاغذات منظور کر لیے تھے۔
کاغذات جمع کرانے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار سہیل آفریدی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت کو قائم رہنا چاہیے اور آئین نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا واضح طریقہ کار بتایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے اسمبلی میں گفتگو کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں دو وزرائے اعلیٰ کیسے ہو سکتے ہیں؟ موجودہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ تاحال گورنر نے منظور نہیں کیا، جب کہ پی ٹی آئی ایک اور وزیراعلیٰ منتخب کرنے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ جب موجودہ وزیراعلیٰ نے باضابطہ طور پر عہدہ نہیں چھوڑا، صوبائی کابینہ بدستور موجود ہے، تو پھر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا انعقاد کیسے ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی طور پر ناتجربہ کار لوگوں سے دوچار ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمٰن نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی، قائد ایوان کے انتخاب میں جلد بازی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ گورنر اب بھی استعفیٰ واپس کر سکتے ہیں کیونکہ اسے ابھی منظور نہیں کیا گیا اور عندیہ دیا کہ وہ اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر صوبے کے آئینی سربراہ ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کو استعفے کی باضابطہ منظوری کا انتظار کرنا چاہیے تھا، جب موجودہ وزیراعلیٰ اب تک عہدے پر ہیں تو نیا انتخاب کرانا مناسب نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اپوزیشن آج کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کرے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اکرام کھٹانہ نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ پارٹی کے رہنماؤں کے ایک وفد، جس کی قیادت صوبائی صدر ایم این اے جنید اکبر خان کر رہے تھے نے جے یو آئی (ف)، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ملاقاتیں کیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں کسی غیر آئینی یا غیر قانونی دباؤ یا مداخلت کی حمایت نہ کریں۔
ان کے مطابق اے این پی کی قیادت نے یقین دلایا کہ وہ خرید و فروخت یا مالی اثر و رسوخ کا حصہ نہیں بنیں گے، جب کہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کا پیغام اپنی مرکزی قیادت تک پہنچائیں گے۔