اسرائیل کی حمایت یافتہ ملیشیا نے غزہ میں صحافی صالح الجعفراوی کو شہید کردیا
غزہ میں اسرائیل کی حمایت یافتہ مسلح ملیشیا نے فلسطینی صحافی صالح الجعفراوی کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔
فلسطینی ذرائع نے ’الجزیرہ عربی‘ کو بتایا کہ 28 سالہ صالح الجعفراوی کو جنگ کی کوریج کے دوران اپنی ویڈیوز کی وجہ سے شہرت ملی تھی، شہر کے صابرہ محلے میں جھڑپوں کی رپورٹنگ کے دوران ایک ’مسلح ملیشیا‘ کے ارکان کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔
الجزیرہ کی تحقیقاتی ایجنسی ’سنَد‘ نے صحافیوں اور کارکنوں کی جانب سے شائع کی گئی ویڈیوز کی تصدیق کی جن میں صالح الجعفراوی کی لاش ایک ٹرک کے پچھلے حصے میں پڑی دکھائی دیتی ہے، وہ صحافتی جیکٹ پہنے ہوئے تھے جس پر ’پریس‘ لکھا تھا، وہ اتوار کی صبح سے لاپتا تھے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق صابرہ میں حماس کی سیکیورٹی فورسز اور دغمش قبیلے کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی تھیں، تاہم مقامی حکام نے اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔
غزہ کی وزارت داخلہ کے ایک سینئر ذریعے نے ’الجزیرہ عربی‘ کو بتایا کہ غزہ شہر میں ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیل کی حمایت یافتہ ایک مسلح ملیشیا ملوث ہے۔
ذرائع نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے اس ملیشیا کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور ملیشیا کے ارکان نے اُن بے گھر افراد کو قتل کیا جو جنوبی غزہ سے واپس غزہ شہر جا رہے تھے۔
اگرچہ حالیہ جنگ بندی برقرار ہے، لیکن مقامی حکام بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں سلامتی کی صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔
صالح الجعفراوی نے جنوری میں الجزیرہ سے گفتگو میں اپنی بے دخلی کے تجربات بیان کیے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک عارضی جنگ بندی شروع ہونے والی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ’ان 467 دنوں کے دوران جو کچھ میں نے دیکھا، وہ کبھی نہیں بھول سکتا، جو حالات ہم نے برداشت کیے، وہ ہماری یادوں سے کبھی مٹ نہیں سکتے‘۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ایمانداری سے کہوں تو میں ہر لمحہ خوف میں جیتا رہا، خاص طور پر جب میں نے سنا کہ اسرائیلی قبضہ میرے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ میں زندگی لمحہ بہ لمحہ گزار رہا تھا، نہیں جانتا تھا کہ اگلا لمحہ کیا لائے گا‘۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب اکتوبر 2023 میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد غزہ میں اب تک 270 سے زیادہ صحافی مارے جا چکے ہیں، جو صحافیوں کے لیے تاریخ کی سب سے خونریز جنگ ثابت ہوئی ہے۔
صالح الجعفراوی کی موت اس وقت ہوئی جب غزہ میں موجودہ جنگ بندی مسلسل تیسرے دن بھی برقرار رہی، اور اسی دوران قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے روز مصر کے بحیرہ احمر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ایک غزہ امن اجلاس میں دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ شریک ہوں گے، یہ اجلاس مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے اشتراک سے منعقد ہو رہا ہے۔
مصری صدر کے دفتر کے مطابق، اس اجلاس کا مقصد ’غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے، مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو فروغ دینے اور علاقائی سلامتی و استحکام کے نئے دور کا آغاز‘ کرنا ہے۔
مصری وزارتِ خارجہ نے اتوار کو کہا کہ اس ’تاریخی‘ اجلاس کے دوران ’غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کی دستاویز‘ پر دستخط کیے جائیں گے، تاہم ان مذاکرات میں نہ اسرائیل اور نہ ہی حماس کے نمائندے شریک ہوں گے۔