کراچی چڑیا گھر کی مادہ ریچھ ’رانو‘ کو 2 دن میں محفوظ پناہ گاہ منتقل کرنے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے منگل کے روز کراچی چڑیا گھر انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ مادہ بھوری ریچھ رانو کو 2 دن کے اندر کسی محفوظ پناہ گاہ (سینکچری) میں منتقل کیا جائے، کیوں کہ اس کی بگڑتی ہوئی حالت پر عوامی اور عدالتی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
8 اکتوبر کو جسٹس محمد اقبال کَلہوڑو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سینئر ڈائریکٹر کراچی چڑیا گھر اور سندھ کونسل برائے تحفظِ جنگلی حیات (ایس سی سی ڈبلیو) کے سیکریٹری کو طلب کیا تھا اور ریچھ کی صحت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
درخواست گزار جانوروں کے حقوق کے کارکن جوڈ ایلن پیریرا نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ عوامی مفاد میں عدالت سے اس بات کا اعلان چاہتے ہیں کہ کراچی چڑیا گھر میں قید مادہ بھوری ریچھ کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ جانوروں پر ظلم کے زمرے میں آتا ہے اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اقبال کَلہوڑو نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مادہ ریچھ کو کس حال میں رکھا گیا ہے؟ کیسے اسے ایسے حالات میں رکھا جا سکتا ہے؟
عدالت نے حکم دیا کہ ریچھ کو اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ریچھ کو پچھلے 7 سال سے ایک ہی جگہ قید رکھا گیا ہے، رانو شدید ذہنی دباؤ میں ہے، جس کی وجہ سے وہ اکثر پنجرے سے اپنا سر مارتی ہے اور زخمی ہو جاتی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ ’زخم میں کیڑے پڑ چکے ہیں‘۔
رپورٹس کے مطابق رانو کو حال ہی میں سر پر چوٹ لگی تھی، اور زخم میں صفائی نہ ہونے کے باعث کیڑے پیدا ہو گئے تھے۔
جسٹس اقبال کَلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ اس بے زبان جانور کا کیا قصور تھا، جو اسے 7 سال سے ایک ہی جگہ قید رکھا گیا ہے؟، کیا آپ کو اپنا کام کرنے کے لیے عدالت کے حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے؟ ریچھ کو بہتر جگہ پر کیوں منتقل نہیں کیا گیا اور اس کا علاج کیوں نہیں کیا گیا؟
اس پر ایس سی سی ڈبلیو کے سیکریٹری نے جواب دیا کہ کراچی چڑیا گھر کے ایم سی کے انتظام میں ہے، اس پر ایس سی سی ڈبلیو کا کوئی اختیار نہیں۔
رانو کے لیے بڑی کامیابی، درخواست گزار کا ردِعمل
درخواست گزار پیریرا نے ’ڈان ڈاٹ کوم‘ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’آج کا دن رانو کے لیے ایک بڑی فتح ہے، یہ میرے لیے نہیں بلکہ رانو کے لیے جیت ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ رانو اب شور، بیماری اور استحصال سے محفوظ رہے گی، وہ اب گھاس کی خوشبو سونگھنا سیکھے گی، کھیلے گی، اور ایک ایسا ماحول پائے گی جو اس کی فلاح کے لیے موزوں ہو، ہم اس کے مقروض ہیں، کم از کم اتنا تو ہم اس کے لیے کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا کسی ادارے سے جھگڑا نہیں، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قید میں رہنے والے جانوروں کو آزادی کا حق دیا جائے، کیوں کہ آزادی کسی کے لیے مخصوص نہیں ہونی چاہیے، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔
رانو، جو ایک ہمالیائی بھوری ریچھ ہے، اسے 2017 میں کراچی چڑیا گھر لایا گیا تھا، اس کے ساتھ ایک ایشیاٹک بلیک بیئر بھی تھی جو 2020 میں مر گئی تھی۔
جنوری میں کے ایم سی نے میئر کی ہدایت پر ایک 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ رانو کی حالت کا جائزہ لیا جا سکے، کمیٹی نے رپورٹ میں لکھا کہ ریچھ میں غیر معمولی رویہ دیکھا گیا جو دباؤ کی علامت تھا۔
اگرچہ کمیٹی نے خوراک اور ظاہری صحت کو مناسب قرار دیا، مگر انہوں نے چڑیا گھر میں شور کی سطح کو ’قابلِ برداشت حد سے زیادہ‘ قرار دیا اور سفارش کی کہ ریچھ کو فوراً بَلکسر کے بیئر سینکچری میں منتقل کیا جائے۔
کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ رانو کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔
ماہرینِ حیاتیات کے مطابق رانو دراصل ہمالیائی بھوری ریچھ ہے، جو ایک نایاب اور خطرے سے دوچار نسل ہے، یہ شامی ریچھ نہیں ہے، جیسا کہ چڑیا گھر انتظامیہ کا دعویٰ تھا۔
تاہم 8 ماہ گزرنے کے باوجود، کے ایم سی نے اپنی کمیٹی کی سفارشات پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا تھا۔