پاکستان

بلوچستان میں کوئی بغاوت نہیں، صرف نام نہاد علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں، سرفراز بگٹی

ناراض بلوچ جیسی اصطلاحات صرف دہشت گردی کو جواز دینے کے لیے گھڑی گئیں، جو شخص تشدد کا راستہ اختیار کرے اور ہتھیار اٹھائے، وہ ناراض نہیں بلکہ دہشت گرد ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے صوبے میں بغاوت کو مسترد کرتے ہوئے ’بھارت کے حمایت یافتہ نام نہاد علیحدگی پسند تحریکوں‘ کو سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے خاص طور پر نئی حکمتِ عملیاں اپنائی ہیں جن کے ذریعے زیادہ جانی نقصان پہنچانے اور براہِ راست پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کوئٹہ میں منعقدہ 17ویں نیشنل ورکشاپ کے شرکا سے آج خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبے میں کوئی بغاوت نہیں بلکہ نام نہاد علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ریاست مخالف عناصر کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور تقسیم کرنا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے کی اصل ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی خراب صورتحال کے پیچھے بھارتی ایجنسی ’را‘ کا واضح کردار ہے، علیحدگی پسند بھارت سے خوش ہیں مگر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف مسلح افواج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ لڑائی ہے، صوبے میں ’غیر مساوی ترقی‘ کا جھوٹا تاثر جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تاکہ تقسیم کی فضا ہموار کی جا سکے، اور ناراض بلوچ جیسی اصطلاحات صرف دہشت گردی کو جواز دینے کے لیے گھڑی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو شخص تشدد کا راستہ اختیار کرے اور ہتھیار اٹھائے، وہ ناراض نہیں بلکہ دہشت گرد ہے، نوجوانوں اور ریاست کے درمیان فاصلہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے ذریعے پیدا کیا گیا جب ہ حکومت، یونیورسٹیوں اور ہر فورم پر جا رہی ہے تاکہ نوجوانوں کے مسائل براہِ راست سنے جا سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، سیکیورٹی فورسز ان علاقوں میں آپریشن کر رہی ہیں جہاں دوست اور دشمن میں فرق کرنا مشکل ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی حالیہ رپورٹس کے مطابق سال 2025 کے ابتدائی 3 سہ ماہیوں میں ملک میں اتنا ہی تشدد دیکھا گیا جتنا پورے 2024 میں ہوا تھا۔

2024 میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملے خیبرپختونخوا میں ریکارڈ کیے گئے، جن کی تعداد 295 تھی، جبکہ بلوچستان میں مختلف کالعدم بلوچ تنظیموں، خصوصاً بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے حملوں میں 119 فیصد اضافہ ہوا، جو کل 171 واقعات پر مشتمل تھے۔