پاک-افغان کشیدگی: ’صرف فوجی کارروائیوں سے دہشتگردی کو شکست نہیں دی جاسکتی‘
سرحد کے ساتھ پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد شاید بندوقیں خاموش ہوگئی ہوں لیکن یہ صورت حال کسی وقت بھی مزید بھڑک سکتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب دونوں ممالک کی فورسز کا آپس میں تصادم ہوا ہو لیکن حالیہ جھڑپیں یقینی طور پر شدید تھیں۔
کئی گھنٹوں تک پاکستان کی زمینی اور فضائی فورسز نے طویل سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر اہداف پر بمباری کی۔ کہا گیا کہ یہ کارروائی طالبان فورسز کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کے جواب میں کی گئی۔
دونوں جانب سے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ جھڑپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا کہ جب اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں اور ڈرونز نے سرحد پار شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔
فضائی حملوں کے مرکزی اہداف کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما سمجھے جا رہے تھے جن میں خاص طور پر نور ولی محسود کو ہدف بتایا جارہا تھا جسے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ قرار دیا جارہا ہے۔ اس حملے میں اس کی ہلاکت کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے یہ نہیں کہا کہ کابل اور دیگر مقامات پر ہونے والے دھماکوں میں وہ ملوث تھا لیکن اس نے بارہا یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ اسے اپنی سیکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے بڑھتے ہوئے شدت پسند حملوں کے خلاف اپنا دفاع کا حق حاصل ہے۔
صرف اسی ماہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے حملوں میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ یہ سال گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا ہے۔
گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کا افغان طالبان انتظامیہ کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو ٹی ٹی پی کے دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنہیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس افغان طالبان کے پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاک فضائیہ نے افغانستان کے اندر شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہو لیکن بتایا جاتا ہے کہ حالیہ حملے سب سے زیادہ تباہ کن تھے۔ اگرچہ ماضی میں ان کارروائیوں میں سے بعض کی باضابطہ طور پر پاکستان نے تصدیق بھی کی تھی۔ اس کارروائی کو افغانستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے طالبان فورسز نے جوابی کارروائی میں متعدد پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے اور درجنوں پاکستانی فوجیوں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا۔
اگرچہ جھڑپیں تو رک چکی ہیں لیکن صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت معطل ہو چکی ہے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتا ہوا تنازع علاقائی سلامتی کے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئیں کہ جب اسحٰق ڈار کے حالیہ دورہ کابل کے بعد کچھ مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی اور پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چین نے بھی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ سرکاری سطح پر مذاکرات جاری تھے۔
ادھر اسلام آباد نے بھی کچھ تجارتی راستے جو کئی ماہ سے بند تھے، دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حال ہی میں افغانستان سے متعلق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی نام نہاد ماسکو فارمیٹ کے تحت ہوئی تھی۔ تاہم سرحدی جھڑپوں کے بعد چند دنوں میں صورت حال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ پاکستان کے خصوصی ایلچی کی قیادت میں وفد جو ایک معمول کی ہفتہ وار ملاقات کے لیے افغانستان جارہا تھا، کابل نے وفد کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ کشیدگی اُس وقت بڑھی جب افغان طالبان کے وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کابل اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے جبکہ اسی دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات شدید تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
اگرچہ نئی دہلی نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا لیکن اب اس نے کابل میں اپنے دفتر کو سفارت خانے کی سطح پر بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت قدامت پسند اسلامی تحریک کے حوالے سے بھارت کے رویے میں ایک قابلِ ذکر تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماضی میں بھارت نے طالبان کو پاکستان کی پراکسیز قرار دیا تھا۔
لیکن موجودہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں جہاں ‘میرے دشمن کا دشمن، میرا دوست ہے’ کی پالیسی نظر آتی ہے، وہاں یہ ڈرامائی تبدیلیاں حیران کن نہیں ہونی چاہئیں۔ نئی دہلی اور کابل کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس تشویش کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ پرانا اتحاد دوبارہ زندہ ہو رہا ہے جو پاکستان کی مغربی سرحد کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
پاکستان کی سیکیورٹی ادارے طویل عرصے سے بھارت پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے جو پاکستان میں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
سرحد پار شدت پسندوں ٹھکانوں سے لاحق پاکستان کو سلامتی خطرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ملک میں عسکریت پسندی میں اضافے کی واحد وجہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنی انسداد دہشت گردی کی پالیسیز کی ناکامی کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ہمارے پاس اس وجودی خطرے سے نمٹنے کے لیے کبھی بھی طویل المدتی اور مربوط پالیسی نہیں رہی ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے میں ہماری غیر مستقل مزاجی عسکریت پسندی میں موجودہ اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
فوج کے ترجمان نے پشاور میں حالیہ پریس کانفرنس میں ذمہ داری اُس وقت کی سیاسی قیادت پر ڈالنے کی کوشش کی کہ انہوں نے ہزاروں مسلح ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو ملک میں واپس آنے کی اجازت دی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے اس معاملے میں شامل تھے۔
ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو بلامشروط جن میں کچھ ’انتہائی خطرناک‘ دہشتگرد بھی شامل تھے، پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت کے نئے افغان طالبان حکومت کے دباؤ پر کیا گیا تھا جسے اُس وقت قریبی اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ کیا یہ عمل ریاست کی منظوری کے بغیر ممکن ہو سکتا تھا؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک اعتبار سے دو اہم صوبوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جوکہ شدت پسندانہ حملوں کے مراکز ہیں، وہاں سیاسی عدم استحکام نے کالعدم گروہوں کو سرگرم عمل ہونے کا زبردست موقع فراہم کیا ہے۔
جو بات ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ عسکریت پسندی میں اضافے کا براہ راست سیاسی عدم استحکام سے تعلق ہے۔ صرف عسکری کارروائیاں، شر پسندی کو شکست نہیں دے سکتیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام میں بڑھتی ہوئی سیاسی بیگانگی سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ متنازعہ علاقوں میں مقامی آبادی اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان اعتماد کا بڑا خلا موجود ہے جو عسکریت پسندی سے مقابلہ کرنے کو بہت زیادہ مشکل بنا دیتا ہے۔
تمام الزامات بیرونی قوتوں پر ڈال دینا بھی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اندرونِ ملک اپنے معاملات کو درست کرنا چاہیے۔ کوئی بھی ملک عوامی حمایت کے بغیر شورش کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
