کاروبار

4 ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز لیبر مارکیٹس کو ’نئی شکل‘ دینے کو تیار ہیں، عالمی اقتصادی فورم

اے آئی، روبوٹکس، جدید توانائی کے نظام، اور سینسر نیٹ ورکس زراعت، مینوفیکچرنگ، صحت، اور دیگر شعبوں میں پیداوار بڑھانے اور نوکریوں کو تبدیل کرنے کے مواقع فراہم کریں گی، رپورٹ

4 ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز ، مصنوعی ذہانت (اے آئی)، روبوٹکس، جدید توانائی کے نظام، اور سینسر نیٹ ورکس عالمی لیبر مارکیٹوں کو ’نئی شکل‘ دینے والی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز زراعت، مینوفیکچرنگ، صحت، اور دیگر شعبوں میں پیداواریت بڑھانے اور نوکریوں کو تبدیل کرنے کے نئے مواقع فراہم کریں گی۔

منگل کے روز شائع ہونے والی رپورٹ بعنوان ’نوکریاں: مستقبل کی ٹیکنالوجی اور دنیا کی سب سے بڑی ورک فورسز کا مستقبل‘ میں کہا گیا ہے کہ ان ٹیکنالوجیز کی مکمل صلاحیت کو حاصل کرنے اور ان سے وابستہ خطرات کو سنبھالنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات درکار ہوں گے، جن میں سرمایہ کاری کے وسائل کو متحرک کرنا، عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو تیز کرنا اور مساوی رسائی کو یقینی بنانا شامل ہے۔

یہ رپورٹ ڈبلیو ای ایف کی گلوبل فیوچر کونسل آن جابز اینڈ فرنٹیئر ٹیکنالوجی نے تیار کی ہے، جو اُن 7 شعبوں کا جائزہ لیتی ہے، جن میں ٹیکنالوجی کی سب سے زیادہ تبدیلی متوقع ہے۔

یہ شعبے، جو مل کر عالمی ورک فورس کا تقریباً 80 فیصد حصہ ہیں، ان میں زراعت، مینوفیکچرنگ، تعمیرات، تھوک و خوردہ تجارت، ٹرانسپورٹ و لاجسٹکس، کاروبار و انتظام، اور صحت کا شعبہ شامل ہیں۔

ڈبلیو ای ایف کی سربراہ برائے کام، اجرت اور ملازمت کی تخلیق ٹِل لیوپولڈ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کا راستہ ان فیصلوں سے طے ہوگا جو اب اور آنے والے برسوں میں کیے جائیں گے، یہ سمجھنا کہ کون سی ٹیکنالوجیز سب سے زیادہ تبدیلی لانے والی ہوں گی اور وہ ان کلیدی شعبوں پر کیسے اثر انداز ہوں گی، اُن کے اثرات کا اندازہ لگانے اور مثبت نتائج کی سمت رہنمائی کے لیے نہایت اہم ہے۔

اگرچہ عالمی بحث کا زیادہ تر حصہ دفتر سے وابستہ نوکریوں پر مرکوز رہا ہے، رپورٹ مختلف صنعتوں میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے حقیقی اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔

مثال کے طور پر، ڈرون ٹیکنالوجی متحدہ عرب امارات میں شہری علاقوں میں سامان کی مؤثر ترسیل کو ممکن بنا رہی ہے اور گھانا کے دیہی علاقوں میں طبی آلات جیسے ضروری سامان پہنچانے میں مدد کر رہی ہے۔

افریقہ میں، چھتوں پر نصب قابل تجدید توانائی کے نظام بجلی کے تعطل کو روک کر فرنٹ لائن ورکرز کے کام کے اوقات کو مستحکم کر رہے ہیں، جب کہ توانائی کے ماہرین کی مانگ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ نیم خودکار تعمیراتی آلات مزدوروں پر جسمانی دباؤ کم کرنے اور حفاظت بہتر بنانے میں مددگار ہیں، اسی طرح روبوٹکس اور اے آئی کا امتزاج صحت کے شعبے میں مریضوں کے علاج کے عمل اور ورک فورس کے ڈھانچے کو بدل سکتا ہے۔

اگرچہ یہ ٹیکنالوجیز نمایاں مواقع فراہم کرتی ہیں، وہ خطرات بھی رکھتی ہیں، ان کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے رپورٹ صنعتی لحاظ سے مخصوص اور سیاق و سباق پر مبنی اقدامات کی سفارش کرتی ہے۔

زراعت اور صحت کے شعبوں میں توجہ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور اس تک رسائی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بہتری پر ہونی چاہیے، مینوفیکچرنگ کے لیے حکمتِ عملی مقامی صنعتی نظام کے مطابق ڈھالی جانی چاہیے، تھوک، خوردہ، ٹرانسپورٹ، اور لاجسٹکس کے شعبے ایسی ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو کارکردگی میں اضافہ کریں، لیکن مارکیٹ پاور کے ارتکاز سے بچیں۔

تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملازمین، حکومتوں، اور ٹیکنالوجی ڈیولپرز کے درمیان تعاون لازمی ہے تاکہ یہ تبدیلیاں ایک زیادہ پیداواری اور جامع عالمی ورک فورس کا باعث بنیں۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کلیدی اقدامات میں ٹیکنالوجی میں زیادہ سرمایہ کاری کو ممکن بنانا، معاون مارکیٹ ڈھانچوں کو فروغ دینا، ورک فورس کی حکمت عملیوں کو آجرین کے اہداف سے ہم آہنگ کرنا، اور ٹیکنالوجی سے لیس ورک فورس کی صلاحیت کو سمجھنا شامل ہیں۔