دنیا

بنگلہ دیش: استغاثہ کا حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم پر سزائے موت دینے کا مطالبہ

ایک ہزار 400 افراد کے قتل کیلئے ملزمہ کو اتنی ہی بار سزائے موت دی جانی چاہیے، لیکن یہ انسانی طور پر ممکن نہیں، حسینہ کا مقصد اقتدار سے چمٹے رہنا تھا، چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام

بنگلہ دیش میں استغاثہ کے وکلا نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ مفرور سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت دی جائے۔

ٹی آر ٹی ورلڈ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے کہا کہ ’ہم ان کے لیے سب سے بڑی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک قتل کے بدلے ایک سزائے موت قانون ہے، ایک ہزار 400 افراد کے قتل کے لیے ملزمہ کو اتنی ہی بار سزائے موت دی جانی چاہیے، لیکن چوں کہ یہ انسانی طور پر ممکن نہیں، اس لیے ہم کم از کم ایک سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

شیخ حسینہ نے عدالت کے ان احکامات کو نظر انداز کر دیا ہے، جن میں انہیں بھارت سے واپس آ کر مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

وہ گزشتہ سال بھارت فرار ہو گئی تھیں تاکہ ان الزامات کا سامنا نہ کرسکیں، جن کے مطابق انہوں نے طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے خونریز کارروائی کا حکم دیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق جولائی اور اگست 2024 کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں تقریباً ایک ہزار 400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

استغاثہ کا الزام ہے کہ 78 سالہ حسینہ ان تمام جرائم کا مرکز تھیں جو جولائی تا اگست کی بغاوت کے دوران کیے گئے تھے۔

انہیں 2 سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ غیر حاضری میں مقدمے کا سامنا ہے۔

ان کے سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال بھی مفرور ہیں، جب کہ سابق پولیس سربراہ چوہدری عبداللہ المامون حراست میں ہیں اور وہ اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں۔

استغاثہ نے جمعرات کو کہا کہ اسد الزمان خان کمال کو بھی سزائے موت دی جانی چاہیے۔

یہ مقدمہ یکم جون کو شروع ہوا تھا، اب تک کئی ماہ کی گواہی سن چکا ہے، جس میں حسینہ واجد پر اجتماعی قتل کے احکام دینے یا انہیں روکنے میں ناکامی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

تاج الاسلام نے کہا کہ ’حسینہ کا مقصد اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے اقتدار سے چمٹے رہنا تھا‘۔