کراچی: صدیوں کی کتھا! (انتالیسویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
تیسرے معاہدے کے چند برسوں بعد یعنی 1823ء میں پھر انگریزوں نے کھوسوں کے حملوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات پر خرچے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی سندھ اور کَچھ کی سرحد پر کمپنی سرکار نے اپنی چوکیاں بھی قائم کر دیں۔ پھر وہی کہانی دہرائی گئی کہ میر کرم علی تالپور نے ان مسائل کے حل کے لیے مرزا خسرو بیگ کو سفیر بنا کر بمبئی بھیجا۔
سمندری سفر کے بعد سندھ کے حاکموں کے اس وفد میں دو اور اہم لوگ، آخوند محمد بقا اور محمد عابد ٹھٹوی بھی شامل تھے۔ اس وفد نے بمبئی کے گورنر ایلفنسٹن سے اس حوالے سے بات چیت کی جس کا کمپنی سرکار نے مثبت جواب دیا اور معاملات ایک بار پھر حل ہوگئے اور وفد حیدرآباد لوٹ گیا۔ اس طرح کمپنی سرکار اور سندھ سرکار میں دھوپ چھاؤں کا سلسلہ چلتا رہا اور وقت کا کام تھا چلنا سو وہ چلتا رہا۔
17 فروری 1827ء کو گورنر جنرل بنگال لارڈ ولیم ایمہرسٹ (Lord William Amherst) مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے بیٹے اکبر شاہ ثانی سے ملا اور جس تلخ اور تذلیل بھرے لہجے میں گفتگو کی وہ مغل شہزادے پر گراں گزری اور اس نے اس کی شکایت کرنے کے لیے راجا رام موہن رائے کو انگلستان بھیجا۔ دہلی سے اکبر شاہ کی تذلیل کرنے کے بعد گورنر جنرل شملہ روانہ ہوا جہاں رنجیت سنگھ کے ایک وفد سے اسے تفصیلی ملاقات کرنا تھی۔
اسی برس یعنی 1827ء اکتوبر کی 23 تاریخ منگل کے دن کَچھ کے سفارت خانہ کو سندھ کے امیروں کا ایک خط موصول ہوا جس میں دوستی شہد کی طرح ٹپک رہی تھی۔ اس میں استدعا کی گئی تھی کہ میر مراد سخت بیمار ہیں، ڈاکٹر جیمس برنس کو اس کے علاج کے لیے حیدرآباد بھیجا جائے۔
حالات کے برعکس اس خط کی وجہ سے سفارت خانے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے کیونکہ لارڈ ولیم ایمہرسٹ نے جو 1824ء میں برما سے جنگ چھیڑی تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے 1818ء میں اَودھ بھی اب کمپنی کے قبضہ میں تھا۔ روس، ایران میں داخل ہوچکا تھا اور ہندوستان میں فی الوقت کوئی بڑا اُدھم بھی نہیں تھا اور میر مراد کی بیماری کے متعلق کمپنی کے جاسوسوں نے جو رپورٹ دی تھی اس کے مطابق میاں نور محمد اتنے شدید بیمار بھی نہیں تھے۔ ایسی صورت حال میں تالپوروں کے اس خط نے پُراسراریت پیدا کی جس کے باعث منظرنامہ دھندلا سا گیا تھا۔
جیمس برنس اس خط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’ آخرکار انگریز سرکار نے 1819ء میں کَچھ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اور کَچھ بھج پر ہمارے قبضے سے سندھ کے حاکم کبھی خوش نہیں تھے کیونکہ وہ کلہوڑا زمانے سے اسے اپنے ملک کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے حاکموں سے ان کے رشتے بھی رہے ہیں اور مشکل وقت میں وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں۔
’ہمارا تالپوروں سے لڑائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر پھر بھی دو موقع پر ایک 1825ء میں، کَچھ میں فوجیں تیار کر رکھی تھیں کہ وہ بھرت پور اور برما کی کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر ہمارے علاقوں میں نہ گُھس آئیں کیونکہ اسی برس سندھ کے کَچھ ڈاکوؤں جن میں میانوں کے ٹولے بھی شامل تھے، انہوں نے کَچھ میں لوٹ مار کی کئی وارداتیں کیں اور ہمارے جاسوسوں کی رپورٹ کے مطابق انہیں سندھ کے امیروں کی مدد حاصل تھی۔ اس سے یہ لگتا تھا کہ تالپور ہم سے تعلقات رکھنا نہیں چاہتے۔ ایسی صورت حال میں سندھ سے کسی انگریز عملدار کو دعوت دے کر بلایا جائے تو یہ شک اور حیرت کی بات تو ضرور تھی‘۔
ہم 1827ء میں جانے سے پہلے کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے ہیں اور پرتگیزوں کے ہندوستان کے مختلف بندرگاہوں اور بیوپار پر قبضے، انگلینڈ کے سیاسی حالات اور بیوپاریوں کی اس ایسٹ انڈیا کمپنی کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں کہ آخر دو ڈھائی صدیوں تک وہ ہمیں کس جرم کی سزا دے کر گئے یہاں سے گئے۔
تاریخ کے گزرے زمانوں کو سمجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ قارئین کے سامنے تقابلی جائزوں کے ذریعے اُن زمانوں کے مختلف منظرنامے کو رکھیں جیسے ہم اگر قبل از تاریخ کی بات کریں تو ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جس مقام کے لیے ہم یہ بات کر رہے ہیں بالکل ان دنوں میں ہمارے موضوع سے منسلک دیگر مقامات پر جو ہو رہا تھا، اس کا بھی ذکر کر سکیں تو یہ تاریخ کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش ہوگی۔ میں آپ کو برطانیہ کے جزیروں اور وہاں کی سیاسی اُتھل پُتھل کے متعلق ایک مختصر سے حقائق سنانے والا ہوں۔
روم کے جولیس سیزر (پیدائش: 100 قبل از مسیح - موت: 44 قبل از مسیح) کا 300 برس تک جنوبی برطانیہ کے جزائر پر قبضہ رہا۔ سلطنت روما کے کمزور ہونے کے بعد 5ویں صدی میں رومیوں نے ان جزائر سے واپسی کی اس کے بعد شمالی جرمن قبائل نے برطانیہ کا رخ کیا اور بغیر کسی بڑی مزاحمت کے ان جزائر پر قبضہ کرلیا۔
جوٹس، اینگلز اور سکینز قبیلوں نے برطانیہ پر قبضہ کر لیا اور آگے چل کر ان تینوں قبیلوں کو ایک نام ’اینگلز‘ سے پکارا گیا اور اس نسبت سے برطانیہ کا نام انگلینڈ (انگلستان) مشہور ہوا۔
برطانیہ پر ’ٹیوڈر خاندان‘ (1485ء سے 1603ء) کی حکومت تھی اور سیاسی و تجارتی حوالے سے افراتفری تھی۔ ہنری ہشتم نے پارلیمنٹ کے سہارے ایک مضبوط حکومت قائم کی اور قانون بنا کر جاگیرداروں کی طاقت کو کچل دیا۔ اسی زمانے میں نئے نئے سمندری راستوں کی کھوج ہوئی جو آگے چل کر بیوپار کے راستے بنے۔
باری علیگ لکھتے ہیں کہ ’ہینری ہشتم نہ کیتھولک تھا اور نہ پروٹسٹنٹ، وہ پروٹسٹنٹ کو بے دینی کے الزام میں اور کیتھولک کو یورپ کے تابع ہونے کے الزام میں قتل کرواتا تھا۔ ہینری نے اپنے وزیراعظم کو اس لیے موت کی سزا دی کیونکہ ہینری نے اس سے سوال کیا کہ انگلستان کے کلیسا کا حاکم اعلیٰ کون ہے؟ وزیراعظم مُور ’پوپ‘ کا نام لینے کی وجہ سے مارا گیا۔
دو عشرے کے بعد ’تھامس کرامویل‘ کا بھی یہی حشر ہوا۔ ہینری کے بعد ’میری ٹیڈر‘ اور پھر اس کی بہن ’الزبیتھ‘ تخت نشین ہوئیں اور یہاں اکبر بادشاہ حکومت کے تخت پر بیٹھا۔ اکبر نے 1605ء میں یہ جہان چھوڑا جبکہ ملکہ الزبتھ مارچ 1603ء میں وفات پا چکی تھیں۔ ملکہ کے زمانے میں انگریز تاجروں نے ہندوستان سے تجارت کرنے کی کوشش کی اور ملکہ نے کمپنی کو 15 برس کے لیے ہندوستان سے تجارت کرنے کا اجازت نامہ جاری کیا۔
ان کے زمانے میں ہسپانیہ کے ’آرمیدہ‘ کی شکست نے انگلستان میں کیتھولک مذہب کو شکست دی جبکہ اس کے بعد انگریز ملاحوں کے لیے سمندر کے راستے کھل گئے اور ساتھ میں آرمیدہ کی شکست کے بعد انگلستان نے اپنی بحری طاقت کو بہت زیادہ مضبوط کیا اور انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان طویل کشمکش کا خاتمہ ہوا۔
ملکہ الزبتھ کے بعد جیمس اول کے زمانے میں کمپنی نے ’تھامس رو‘ کو جہانگیر کے زمانے میں سفیر بنا کر بھیجا اور اسے ’سورت‘ میں فیکٹری قائم کرنے کی اجازت ملی جبکہ جہانگیر نے اپنے دوسرے فرمان میں کمپنی کو اپنی سلطنت میں تجارت کرنے کی اجازت دے دی اور اسی زمانے میں آگرہ، احمد آباد اور بھڑوچ میں کمپنی کی تجارتی کوٹھیاں قائم ہوئیں۔
جیمس کے بعد چارلس اول حکومت میں آیا۔ چارلس اول کے زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے خوب دولت سمیٹی۔ اُس نے ایک پرتگیزی شہزادی سے شادی کی۔ یہ شہزادی اپنے جہیز میں جو جزیرہ لائی اسے چارلس دوم نے کمپنی کو 10 پاؤنڈ سالانہ لگان پر دے دیا۔ اس جزیرے نے بعد میں بمبئی یا ممبئی کی صورت اختیار کی۔
چارلس اول نے اسے کوئی عزت نہیں دی جس کو ان حرکتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ نے اس پر ظالم اور ملک دشمن ہونے کا الزام لگا کر اسے وائٹ ہال میں (30 جنوری 1649ء) قتل کردیا۔ اس کے بعد انگلستان میں آمرانہ جمہوریت کا زمانہ آیا۔ ’کرامویل‘ انگلستان کا آمر تھا۔ یہ دور کچھ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا۔ مگر کرامویل نے ابتدا میں نئے نئے تاجروں کو ہندوستان سے تجارت کرنے کی اجازت دی۔
کرامویل کی موت (1658ء) کے بعد چارلس اول کا بیٹا جو دیارِ غیر میں پناہ گزین تھا، وہ انگلستان آیا اور تخت پر چارلس دوم کے نام سے بیٹھا۔ چارلس دوم 1649ء سے 1651ء تک اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ اور بادشاہت کی بحالی سے 1658ء تک، انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کا بادشاہ رہا۔
1652ء سے 1654ء کے درمیان کے 2 برسوں میں ڈچوں نے انگریزوں کے 3 جہازوں پر قبضہ کیا اور ان میں سے ایک کو تو انہوں نے بالکل برباد کردیا۔ 1672ء سے 1674ء تک کے عرصے میں انگریزوں نے بنگال کے کناروں سے 3 جہاز پکڑ لیے۔
اس کے علاوہ سورت اور بمبئی کے درمیان والے علاقے سے اور جہازوں کو بھی پکڑا مگر افسران سے رویہ ٹھیک رکھا وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ انگریزوں نے مقامی حکمرانوں (ریاستوں) سے مختلف معاہدے کر رکھے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ڈچوں کو ہندوستان کے ساحلوں سے نکال دیا جائے۔ مگر ڈچ اپنی بیوپاری حیثیت کو 18ویں صدی کے پہلے نصف تک بحال رکھتے آئے۔ 1750ء میں انگریزوں اور ڈچوں کی ایک طویل جنگ چنسورا کے مقام پر لڑی گئی (جسے بیٹل آف بیڈرا یا بیٹل آف ہوگلی بھی کہا جاتا ہے)۔ اس جنگ میں انگریز جیتے اور ڈچوں کو شکست ہوئی۔
1795ء میں جب فرانس نے نیدرلینڈز فتح کرلیا تو برطانیہ نے ڈچ کولونیوں پر قبضہ کر لیا۔ نیدرلینڈز کے بڑے بینکار (Hope) لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکز ایمسٹرڈیم سے لندن منتقل ہوگیا۔ 1858ء میں کمپنی کے اختیارات تاج برطانیہ کے کنٹرول میں دے دیے گئے مگر 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی نے اپنے ہاتھ میں رکھے۔
اس وقت کمپنی کے پاس 2 ہزار 690 چھوٹے بڑے جہاز تھے۔ انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی لمیٹڈ کمپنی تھی جس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72 ہزار پاؤنڈ کے سرمایے سے شروع کی گئی تھی۔
’ہراری‘ لکھتے ہیں کہ چین افیون پر پابندی لگا چکا تھا۔ برطانیہ آزاد تجارت کے نام پر چین سے جو جنگ کرنے والا تھا، اُس میں ابھی 10 برس باقی تھے۔ سرمایہ کاروں کے مفادات میں یہ جنگ نہیں تھی بلکہ افیون کی مانند جنگ خود ایک حقیقت بن گئی۔
1821ء میں یونانیوں نے سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کردی۔ اس بغاوت کو آزاد خیال اور رومان پرست برطانوی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
برطانوی شاعر لارڈ بائرن، یونان جا کر باغیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا لیکن لندن کے سرمایہ کاروں کو بھی ایک موقع نظر آیا۔ انہوں نے باغی رہنماؤں کو پیشکش کی کہ قابل تجارت ’بغاوت بانڈ‘ لندن کے حصص بازار سے جاری کریں۔ اگر باغی یہ جنگ جیت جاتے ہیں تو یہ بانڈ رقم کی بمع سود واپسی کا وعدہ کرتے ہیں۔ نجی سرمایہ کار کُچھ نفع کی ہوس میں، یونانیوں سے ہمدردی میں اور کچھ دونوں وجوہات سے بانڈ خریدتے رہے۔
اس بانڈ کی قیمت لندن کے حصص بازاروں میں ہیلاس کے جنگی میدانوں میں ہار جیت کے ساتھ اترتی اور چڑھتی رہی۔ آخر ترکوں نے برتری حاصل کرلی۔ باغیوں کی شکست یقینی ہوئی تو بانڈ کے خریداروں کو اپنی رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہوا۔ بانڈ خریداروں کا مفاد قومی مفاد تھا۔ لہٰذا برطانیہ نے ایک بین الاقوامی بیڑہ مرتب کیا اور 1827ء میں جنگ ناوارینوِ میں، عثمانیوں کا اہم بیڑہ ڈبو دیا۔
اس جنگ کے بعد سرمایہ دار خود کو محفوظ سمجھنے لگا کہ اگر بیرون ملک قرضہ واپس کرنے سے انکار کرے گا تو ملکہ کی فوج رقم کی واپسی کو یقینی بنادیتی ہے۔ اس لیے سرمایہ کار اپنی رقم زیادہ خطرناک غیرملکی معاہدوں پر لگانے کے لیے تیار ہوگیا۔
17ویں صدی میں انگریزوں نے بیوپار اور اس کے راستوں پر زیادہ توجہ دی جس کی وجہ سے انہوں نے سورت کو چھوڑ کر بمبئی اور مدراس میں جاکر بیوپاری مراکز قائم کیے اور اس صدی کے آخر میں انہوں نے کلکتہ میں اپنا مرکز قائم کردیا۔ انگریز دھیرے دھیرے آکاس بیل کی طرح ہندوستانی وسائل پر اپنی جڑیں لپیٹتے رہے اور آکاس بیل دیکھنے میں کتنی بھی خوبصورت نظر آئے مگر اس کا یہ کام ہے کہ جس درخت پر اس کی جڑیں پہنچ جائیں وہ اس ہرے بھرے درخت کو نچوڑ کر مار ڈالتی ہیں۔
ول ڈیورانٹ (Will Durant) جو 1930ء میں ہندوستان آیا تھا اور 11 جلدوں پر مشتمل ضخیم تحقیقی کتاب ’تہذیب کی کہانی‘ تحریر کی وہ برطانیہ کی لوٹ مار اور یہاں کے معاشی ڈھانچے کی بربادی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ، کسی بھی جواز یا اصول کے بغیر ایک تجارتی کمپنی (برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی) کی ایک اعلیٰ تہذیب پر یلغار اور تباہی تھی۔ فن سے بے نیاز اور غلے کے حریص، عارضی طور پر منتشر اور بے یار و مددگار مملکت کو آگ اور تلوار سے تاراج کرنے، رشوت دینے اور قتل کرنے، الحاق کرنے اور قانونی و غیر قانونی لوٹ مار کے اس پیشے کا آغاز 173 برسوں سے آج تک (1930ء) بے رحمی سے جاری و ساری ہے‘۔
18ویں صدی کے ابتدائی برسوں کی برطانوی معاشی تاریخ پر تحقیق کرنے والے ’انگس میڈیسن‘ (Angus Maddison) تحریر کرتے ہیں کہ ’عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 23 فیصد تھا۔ اتنا بڑا جتنا کہ تمام یورپ کا مشترکہ تھا۔ (1700ء میں جب مغل شہنشاہ اورنگزیب کے خزانہ میں صرف محصولات کی آمدن 10 کروڑ پونڈ تک پہنچ چکی تھی تو یہ 27 فیصد تھا۔) جب برطانیہ ہندوستان سے نکلا تو یہ محض 3 فیصد یا اس سے تھوڑا سا زیادہ رہ گیا تھا۔ وجہ عام فہم تھی۔ ہندوستان پر برطانوی بیوپاریوں اور حکومت کے مفادات کے لیے حکومت کی گئی‘۔
چلیے کمپنی سرکار کی لوٹ مار اور بے رحمی کی بہت ساری داستانیں ہم آگے چل کر سننے والے ہیں۔ مگر جہاں سے یہ ملٹی نیشنل کمپنی آئی تھی وہاں بھی کوئی تھیمس ندی کے کنارے سکون سے بانسری نہیں بجا رہا تھا۔ وہاں بھی ایک دوسرے کو گلے سے پکڑنے اور کشت و خون کی راند جاری تھی۔ مگر یہاں وہ ملازمت کی صورت میں حاکم تھے۔ بہرحال کَچھ بھج چلتے ہیں جہاں جیمس برنس سندھو دریا دیکھنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔
اس خط کے حوالے سے برنس صاحب کا ردعمل کچھ اس طرح سے تھا کہ ’میں اس بلاوے پر بے حد خوش تھا اور اس انتظار میں تھا کہ سرحد کے اس پار جا کر سندھ کے تاریخی دریا کو دیکھوں، اس لیے یہ دعوت میرے لیے خوشگوار تھی’۔
برنس یقیناً کوئی لکھاری نہیں تھے اس لیے ہمیں ان سے منظرناموں کی عکاسی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ ہر بات سیدھی کرتا ہے۔ اگر زیادہ متاثر یا پریشان ہوتا ہے تو کچھ الفاظ میں اپنی کیفیت کا اظہار کردیتا ہے۔ وہ دو تین ماہ سے زیادہ عرصہ یہاں نہیں رہا مگر یہ اہم اس لیے تھے کیونکہ میروں کو جس طرح حکومت ملی، وہ اپنے کمال کے دن جو 40 برس سے بھی زیادہ تھے شاید گزار چکے تھے۔
اگر ہم برنس صاحب کا یہ سفرنامہ غور سے مطالعہ کریں تو باتوں باتوں میں ہمیں ان حقائق کا پتا چل جائے گا کہ 19ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ان کے زوال کی ابتدا ہو چکی تھی۔ اس لیے سندھ کے ان شب و روز کو سمجھنے کے لیے برنس کی کتاب ’A Narrative of a visit to the Court of Sinde‘ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
چلیے ہم بھی آج سے تقریباً 200 برس پہلے آئے ہوئے سرجن جیمس برنس کے قافلے کا حصہ بنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ 200 برس پہلے سندھ کے صدر مقام تک پہنچنے کے لیے کیسی سواریاں اور راستے تھے۔ زراعت کیسی تھی اور لوگ کیسے تھے۔
برنس 28 اکتوبر 1827ء کو بھُج سے لکھپت پہنچا۔ لکھپت کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ ’لکھپت کا قلعہ کَچھ کے مغربی کونے میں ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔ یہ کوری کھاری کے کنارے پر ہے جب سمندر میں پانی چڑھتا ہے تب بڑی بڑی کشتیاں شہر تک آ سکتی ہیں۔ یہ شہر 70 برس پہلے رائے گور (Rao Gore) نے آباد کروایا تھا۔ جبکہ یہ قلعہ کَچھ کے مشہور وزیر یا جمعدار فتح محمد نے تعمیر کروایا تھا۔
’اس نے بڑی کوشش کی کہ یہ شہر آبادی اور بیوپار کے حوالے سے ترقی کرے مگر اس کا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ اس وقت بھی اس شہر کی آبادی 6 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں بسے لوگ الگ الگ ممالک اور شہروں سے آئے ہیں جبکہ سندھ سے آئے بہت سارے خاندان یہاں آباد ہیں۔ 1819ء میں جو زلزلہ آیا تھا اُس میں اس قلعے کو بہت نقصان پہنچا تھا۔
’جزیرہ نما کاٹھیاواڑ کے شمال مغرب میں جو کَچھ کا علاقہ ہے ان دونوں کے درمیان خلیج اور ریگستان ہے، کچھ کا مرکزی شہر بھج ہے جس کی بندرگاہ مانڈوی مشہور ہے۔ یہاں سے سنگ مرمر نکلتا ہے اور لوہے کا کام شاندار ہوتا ہے۔ احمدآباد میں کَچھ، سندھ اور کاٹھیاواڑ کے گھوڑے زیادہ فروخت ہوتے ہیں‘۔
لکھپت کے کوٹ سے وہ 3 نومبر کو نکلا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم تیاریوں کے بعد دوپہر کو کشتیوں پر نکلے۔ موسم اچھا تھا اس لیے دوسری طرف ہم ’کوٹری‘ گھاٹ پر شام 5 بجے پہنچ گئے۔ ہمیں یہاں 100 اونٹوں کا قافلہ ملا جن پر دیسی گھی کے ڈبے لدے ہوئے تھے اور وہ کَچھ کی طرف جا رہے تھے۔ ہم نے چاندنی رات میں سفر شروع کیا۔ (آپ اگر کیلنڈر دیکھیں تو 3 نومبر 1827ء، ہفتے کا دن تھا اور جمادی الثانی 1243ھ کی 13ویں تاریخ تھی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ چاند کی کتنی تیز اور ٹھنڈی روشنی میں برنس کے قافلے نے سفر کیا ہوگا۔)
’5 نومبر کو قافلہ رڑی پہنچا۔ رڑی جو اپنے زمانے میں کپاس اور اونٹوں کے کاروبار کا بڑا مرکز تھا، مگر اچھے دن کسی موسم کی طرح رڑی سے روٹھ گئے تھے، برنس لکھتے ہیں کہ’ کوٹڑی گھاٹ سے رڑی 50 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک شہر تھا مگر اب اپنے آخری ایام گزر رہا ہے۔ یہاں قرب و جوار میں جھیلیں بہت ہیں‘۔
رڑی کے آخری دن ضرور تھے مگر سیکڑوں خاندان تھے جو یہاں بستے تھے اور دھان کی فصلیں کھیتوں میں لہلہاتی تھیں اس لیے برنس کے قافلے کے گھوڑوں کو ہری دھان دی گئی تھی۔ یہاں میروں نے برنس کے استقبال کے لیے دو معززین حیدر خان لغاری اور بہادر خان کو بھیجا تھا اور ساتھ میں 50 اونٹ بھی بھیجے تھے تاکہ برنس کے قافلے کا کوئی بھی آدمی پیدل نہ ہو۔
برنس لکھتے ہیں کہ ’رڑی کے بعد سارا خرچہ میروں نے بھرا اور مجھے خرچ کرنے سے منع کیا گیا۔ ہمیں خوراک کے لیے جو سامان ملتا تھا وہ انتہائی اعلیٰ درجے کا تھا۔ روزانہ وافر مقدار میں چینی، مٹھائیاں اور آفیم دیا جاتا تھا’۔
کَچھ ایک زمانے میں سندھ کا انتہائی اہم قریبی حصہ رہا پھر کلہوڑا دور حکومت میں بھی کَچھ کا بہت سا حصہ سندھ کی حکومت میں تھا۔ چونکہ قریب ہونے اور ایک طرح کے معروضی حالات ہونے کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں بھی تھیں اور اب تک ہیں۔
اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو کراچی کی بہت ساری آبادی کَچھ کے طرف سے آکر یہاں آباد ہوئی ہے۔ تو کراچی اور کَچھ کے گہرے تعلقات کا ذکر ہم مسٹر ایسٹوک (1839ء) کے سفر میں تفصیل سے کریں گے جب وہ کَچھ سے ہوتا ہوا کراچی آیا تھا۔ چلیے جیمس برنس کے قافلے کو رڑی میں آرام کرنے دیتے ہیں اور جلدی واپس آ کر ان کے سفر میں شامل ہوتے ہیں۔
حوالہ جات
- ’کمپنی کی حکومت‘۔ باری علیگ۔ لاہور بک سٹی، لاہور
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ گُجرات‘۔ سید ابو ظفر ندوی۔ ندوہ المصنفین۔ دہلی 1958
- A Narrative of a visit to the Court of Sinde. By: James Burns. 1831.
- British Policy towards Sindh. C.L. Marriwalla. 1947.
- The World Economy: Historical Statistics. Angus Maddison.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
