پاک-افغان کشیدہ صورتحال: ’طورخم، چمن بارڈر‘ تجارتی سرگرمیوں کیلئے 5ویں روز بھی بند
افغانستان کے ساتھ کشیدہ صورتحال کے باعث طورخم اور چمن بارڈز گزشتہ اتوار سے تمام تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پیش رفت اُس وقت سامنے آئی ہے، جب کابل اور اسلام آباد کے درمیان فوجی جھڑپوں میں شدت دیکھنے میں آئی، بارڈر پر ہونے والی جھڑپوں اور 15 اکتوبر کو ہونے والے حملوں کے بعد یہ معاملہ بڑے تنازع میں تبدیل ہونے کا خدشہ موجود تھا، تاہم اس دوران دونوں ملکوں نے عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
دفترِ خارجہ نے اس حوالے سے بتایا کہ سیز فائر طالبان کی درخواست اور باہمی رضامندی سے کیا گیا، جو 15 اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے سے شروع ہو کر آئندہ 48 گھنٹوں تک جاری رہے گا۔
15 اکتوبر کو ڈائریکٹوریٹ جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق افغانستان جانے والی ٹرانزٹ گاڑیاں بارڈر ایریا میں پہنچ چکی ہیں تاہم انہیں پاکستانی حدود سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ یہ گاڑیاں یکم اکتوبر کو شروع ہونے والی نئی ٹریکنگ اینڈمانیٹر نگ سسٹم کے تحت ٹریکنگ ڈیوائسز،آر ایف آئی ڈی سیلز سے لیس ہیں۔
بارڈر ٹرمینلز پر پارکنگ کی محدود گنجائش ہے جس کی وجہ سے شدید رش پیدا ہو گیا، بیان میں مزید کہا گیا کہ گاڑیوں کی طویل پارکنگ یا کھڑے رہنے سے ڈیوائس اور سامان کی چوری ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ واپسی کے سفر نہ ہونے کی صورت میں پورٹ ٹرمینلز پر ٹریکنگ ڈیوائسز کی کمی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ کے مطابق 15 اکتوبر تک طورخم بارڈر پر 107 گاڑیاں اور چمن پر 357 گاڑیاں پہنچ چکی تھیں، جبکہ مزید 37 گاڑیاں طورخم اور 85 گاڑیاں چمن کی جانب رواں ہیں۔
نوٹیفکیشن کے اختتام پر کہا گیا کہ سرحدی مقامات پر رش سے بچنے اور کارگو سامان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے، ڈائریکٹوریٹ، پورٹ ٹرمینل آپریٹرز، مال بردار کمپنیوں، افغان کلیئرنگ ایجنٹس اور ٹریکنگ کمپنیوں سے مشاورت کے بعد عارضی طور پر ٹرانزٹ سامان کی پراسیسنگ اس وقت تک روک رہا ہے، جب تک سرحدی سرگرمیاں معمول پر نہیں آ جاتیں۔
طورخم اور چمن، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم تجارتی راستے ہیں، جہاں سے تازہ پھل، سبزیوں سمیت مختلف اشیا کی ترسیل ہوتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25-2024 میں پاکستان کی افغانستان کو برآمدات 38.68 فیصد بڑھ کر 77 کروڑ 38 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ مالی سال کے 55 کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہیں۔
سرحد پار تجارت کئی بار معطل ہو چکی ہے، رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان میں انٹرنیٹ سروس میں رکاوٹ کے باعث اسلام آباد اور کابل کے درمیان طورخم کے راستے دوطرفہ تجارت متاثر ہوئی تھی۔
افغان حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستانی کسٹمز حکام کو سامان کلیئر کرنے میں مشکلات پیش آئی تھیں۔
مارچ میں بھی طورخم بارڈر کراسنگ پر لوگوں کی آمدورفت اُس وقت اچانک روک دی گئی تھی، جب سرحد کے دونوں جانب تعمیراتی سرگرمیوں پر پاکستان اور افغان سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے آ گئی تھیں۔