دہری اتھارٹی کے باعث پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کی جانچ کا بحران
پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) نے پاکستان میں تیار اور اسمبل ہونے والی گاڑیوں کے معیار کی تصدیق کے اختیارات حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اس طرح وہ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے ساتھ شامل ہو گئی ہے، جسے پہلے سے یہی اختیار حاصل تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں اداروں کے پاس مقامی ٹیسٹنگ لیبارٹریاں موجود نہیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ گاڑیوں کے پرزے معائنے کے لیے بیرونِ ملک بھیجے جائیں گے۔
پی ایس کیو سی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حال ہی میں ’ٹائپ اپروول اسکیم‘ کے نفاذ کی منظوری دی ہے، تاکہ گاڑیوں کی حفاظت میں بہتری لائی جا سکے، اور انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جا سکے، اس اسکیم کے تحت، پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں کا ٹیسٹ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ لیبارٹریوں میں کیا جائے گا۔
یہ اقدامات پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ہدایات کے بعد کیے گئے ہیں، جس نے پاکستان میں اسمبل یا درآمد شدہ گاڑیوں میں بنیادی حفاظتی خصوصیات، جیسے ایئر بیگز، چائلڈ لاکس، اور مؤثر بریکنگ سسٹم کی عدم موجودگی پر تشویش ظاہر کی تھی۔
اس اسکیم کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جب تک کہ مقامی ٹیسٹنگ انفرااسٹرکچر قائم نہیں ہو جاتا، پاکستان میں متعارف کرائی جانے والی ہر نئی گاڑی کا ماڈل بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سہولتوں کے ذریعے معیاری حفاظتی اور کوالٹی ٹیسٹنگ سے گزرے۔
یہ اقدام پاکستان کے عزم کے مطابق ہے، جو اقوامِ متحدہ کے ’یو این ای سی ای‘ کے WP-29 فریم ورک کے تحت کیا گیا ہے، جو 60 سے زائد ممالک کا منظور شدہ حفاظتی معیار ہے۔
پی ایس کیو سی اے، پاکستان کی واحد قانونی طور پر تسلیم شدہ نیشنل اسٹینڈرڈز باڈی ہے، جسے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تکنیکی رکاوٹوں برائے تجارت (ٹی بی ٹی ) معاہدے کے تحت تسلیم کیا گیا ہے، جو ہر ملک میں صرف ایک قومی معیاری ادارے کو تسلیم کرتا ہے۔
اگرچہ وفاقی کابینہ نے جنوری 2023 میں ان معیارات کی توثیق کر دی تھی، مگر ان پر عمل درآمد تاخیر کا شکار ہے، کیوں کہ آٹوموبائل اسمبلرز اور ای ڈی بی نے اعتراضات اٹھائے ہیں، اسی دوران، ای ڈی بی نے علیحدہ نوٹیفکیشنز جاری کرتے ہوئے گاڑیوں کی حفاظت اور معیار کے معیارات پر اپنے اختیار کا دعویٰ کیا ہے۔
آٹو پارٹس بنانے والوں نے پالیسیوں میں تضاد اور ہم آہنگی کی کمی پر تنقید کی ہے، پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پی اے اے پی اے ایم) نے وزارتِ صنعت سے مطالبہ کیا ہے کہ ای ڈی بی کو پرزوں کے معیار کی تصدیق کا واحد مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔
پی اے اے پی اے ایم کے سینئر نائب چیئرمین شہریار قادر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ اصل مسئلہ مقامی ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کی عدم موجودگی ہے، پاکستان میں کوئی مقامی کار برانڈ نہیں ہے، یہاں اسمبل یا تیار ہونے والی تمام گاڑیاں بین الاقوامی برانڈز کی ہیں، جن کے جاپان، کوریا اور چین میں عالمی معیار کی ٹیسٹنگ سہولتیں موجود ہیں، ہم ان ممالک سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کیونکہ ہم انہی کار ساز کمپنیوں کو پرزے فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرزوں کی تصدیق کے لیے دو مختلف غیر ملکی لیبارٹریوں کو بھیجنا غیر ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی تصدیق حاصل کرنے کی لاگت 20 ہزار سے ایک لاکھ امریکی ڈالر کے درمیان ہوتی ہے، دو مختلف سرکاری محکموں کے لیے بار بار یہ تصدیق حاصل کرنا نہ تو عملی ہے اور نہ ہی معاشی طور پر ممکن ہوسکے گا۔