کاروبار

ٹماٹر کی قیمت 560 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، حکومتی غفلت پر عوام پریشان

ہول سیل تاجروں نے اس اضافے کی وجہ پیداوار میں کمی، درآمدی قلت اور حکومتی غفلت کے باعث قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جب کہ عوام مہنگائی کے اس نئے جھٹکے سے شدید پریشان ہیں۔

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ٹماٹر کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بعض ریٹیل مارکیٹوں میں ٹماٹر 560 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ٹماٹر کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ریٹیل مارکیٹوں میں نرخ 560 روپے فی کلوگرام تک پہنچ گئے ہیں۔

تاہم، ہول سیل تاجروں کا کہنا ہے کہ ریٹیلرز ہول سیل قیمت سے دوگنا یا اس سے بھی زیادہ وصول کر رہے ہیں، جو اس وقت 250 سے 300 روپے فی کلوگرام کے درمیان ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث صارفین کم مقدار میں خریداری پر مجبور ہیں اور اکثر صرف 250 گرام لے رہے ہیں تاکہ فوری ضرورت پوری ہو سکے۔

فلاحی انجمن ہول سیل ویجیٹیبل مارکیٹ سپر ہائی وے کے صدر حاجی شاہ جہان نے بتایا کہ ہول سیل مارکیٹ میں ٹماٹروں کی قلت کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق بلوچستان کی فصل ختم ہونے کے قریب ہے، جب کہ ایران سے آنے والے ٹماٹروں کی آمد بھی بہت کم ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ سرحدی حالات کے باعث افغانستان سے ٹماٹروں کی ترسیل کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور سندھ سے نئی فصل آئندہ ماہ آنے کی توقع ہے۔

حاجی شاہ جہان نے مزید بتایا کہ مارکیٹوں میں نرخ نامے نہ ہونے کی وجہ سے ریٹیلرز اپنی مرضی سے قیمتیں مقرر کر رہے ہیں، جس کے باعث ناجائز منافع خوری بڑھ گئی ہے، مٹر، توری، ادرک سمیت دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں بھی 50 سے 100 روپے فی کلو تک اضافہ ہوا ہے۔

مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں کمی

سبزیوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، صارفین کو مرغی کے گوشت میں کچھ ریلیف ملا ہے، زندہ مرغی کی قومی اوسط قیمت 300 سے 390 روپے فی کلو تک گر گئی ہے، جو ستمبر میں 440 سے 540 روپے فی کلو تھی اور بغیر ہڈی والا مرغی کا گوشت بھی 1 ہزار سے 1 ہزار 100 روپے فی کلو سے کم ہو کر 650 سے 800 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔

سندھ پولٹری ہول سیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کمال اختر صدیقی نے بتایا کہ قیمتوں میں کمی کی وجہ پولٹری فارموں میں زیادہ پیداوار ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد بند ہونے کی وجہ سے زندہ مرغیوں اور انڈوں کی ترسیل رک گئی ہے، جس کے باعث کسانوں نے زیادہ وزن والی مرغیاں کم قیمت پر مارکیٹ میں بیچنا شروع کر دی ہیں، بعض علاقوں میں زندہ مرغی 400 روپے فی کلو اور ٹانگ کے ٹکڑے 350 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں۔

تاہم، انڈوں کی قیمتیں اب بھی زیادہ ہیں اور 310 سے 360 روپے فی درجن کے درمیان برقرار ہیں، جو اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کے بعد بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے ہے۔

دالوں کی قیمتیں بدستور بلند

دالوں کے شعبے میں بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے باوجود مقامی ہول سیل ریٹس زیادہ تر مستحکم ہیں، دال مسور، مونگ، ماش اور چنا بالترتیب 250 سے 300، 320 سے 500، 380 سے 530 اور 250 سے 380 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں، جیسا کہ ستمبر سے جاری ہے۔

کراچی ہول سیلرز گروسری ایسوسی ایشن کے صدر رؤف ابراہیم نے بتایا کہ عالمی سطح پر کالے چنے، تور اور مسور کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے، مگر یہ کمی ریٹیل سطح پر صارفین تک نہیں پہنچائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ کم ہول سیل قیمتوں کا فائدہ عوام کو بھی ملے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمتوں میں واضح کمی آئی ہے، کالے چنے کی قیمت 650 ڈالر سے کم ہو کر 460 ڈالر فی ٹن، تور 1 ہزار ڈالر سے 500 ڈالر فی ٹن اور مسور 660 ڈالر سے 460 ڈالر فی ٹن ہو گئی ہے، کابلی چنے کی قیمت بھی 750 سے 800 ڈالر سے کم ہو کر 650 ڈالر فی ٹن تک آ گئی ہے۔

رؤف ابراہیم کے مطابق برما، آسٹریلیا اور تنزانیہ سے آنے والی نئی شپمنٹس اگلے ماہ قیمتوں میں مزید کمی لا سکتی ہیں۔

چینی کی قیمتوں پر خدشات

پاکستان میں چینی کی قیمتیں 177 سے 200 روپے فی کلو کے درمیان مستحکم ہیں، حالانکہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے اس حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے۔

14 اکتوبر 2025 کو پی ایس ایم اے نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے ایس ٹریک پورٹل کے ذریعے چینی کی فروخت معطل ہونے پر بات چیت کی۔

ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے خبردار کیا کہ اگر یہ مسئلہ برقرار رہا تو چینی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ ایف بی آر کی کارروائی درآمدی چینی کی فروخت کو فروغ دینے اور مقامی چینی کی فروخت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہے، جو مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔

صارفین پر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اثر

کراچی کی غذائی منڈی میں قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ نے عام صارفین کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔

ریٹیلرز پر اوور چارجنگ کے الزامات ہیں، جب کہ مارکیٹ میں نرخوں کے تعین کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں، تاہم بعض شعبوں میں ہول سیل سطح پر قیمتوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔