کپاس کی آمد میں کمی سے سپلائی بحران کے خدشات
ملکی سطح پر کپاس کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 22 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود اکتوبر کے پہلے پندرہ دنوں میں منڈی میں نئی پھٹی کی آمد میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس سست روی نے ممکنہ قلتِ رسد کے خدشات کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں روئی، بنولہ اور کھل کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ یکم سے 15 اکتوبر کے دوران ملک بھر میں جننگ فیکٹریوں تک پہنچنے والی پھٹی کی مقدار گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد کم رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیزن کا ابتدائی مضبوط آغاز توقع سے کہیں پہلے سست پڑ گیا ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کے مطابق 15 اکتوبر تک مجموعی طور پر 37.96 لاکھ بیل پھٹی جننگ فیکٹریوں تک پہنچی، جو گزشتہ سال کے 31.02 لاکھ بیل کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ ہے، تاہم 15 روزہ رپورٹ تشویشناک کمی ظاہر کرتی ہے، رواں سال اکتوبر کے پہلے 15 دنوں میں صرف 7.51 لاکھ بیل پہنچی، جب کہ گزشتہ سال اس عرصے میں 10.62 لاکھ بیل موصول ہوئی تھیں۔
پھٹی کی آمد میں کمی کے باعث قومی سطح پر پیداوار میں اضافے کی مجموعی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے، جو 30 ستمبر تک گزشتہ سال کے مقابلے میں 49 فیصد زیادہ تھی مگر اب صرف 22 فیصد رہ گئی ہے، اسی طرح پنجاب میں سالانہ پیداوار کی شرح نمو 56 فیصد سے گھٹ کر 28 فیصد (15.2 لاکھ بیل) اور سندھ میں 45 فیصد سے کم ہو کر 19 فیصد (22.76 لاکھ بیل) رہ گئی ہے۔
احسان الحق کے مطابق غیر معمولی درجہ حرارت اور پنجاب میں ابتدائی اقسام کی زیادہ کاشت کے باعث چنائی کا آغاز توقع سے پہلے ہوا، جس سے ابتدائی طور پر پھٹی کی آمد میں تیزی آئی، تاہم انہوں نے کہا کہ ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ اکتوبر کی رپورٹوں میں نمو کی رفتار میں کمی ظاہر ہوگی، اور یہ رپورٹ انہی خدشات کی تصدیق کرتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو آئندہ رپورٹوں میں مجموعی پیداوار گزشتہ سال کے حتمی تخمینے سے بھی کم دکھائی دے سکتی ہے۔
پھٹی کی غیر متوقع کمی نے فوری طور پر اجناس کی قیمتوں کو متاثر کیا ہے، بنولہ اور کھل کی قیمتوں میں فی من 100 سے 200 روپے تک اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ان کی قیمتیں بالترتیب 3600 اور 3100 روپے فی من تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ خام روئی (لنٹ) کی قیمتوں میں بھی آئندہ کاروباری ہفتے کے آغاز سے اضافے کی توقع ہے۔
دوسری جانب ٹیکسٹائل ملوں نے اب تک 30.4 لاکھ بیل جننگ فیکٹریوں سے خریدی ہیں، جو گزشتہ سال کی 25.91 لاکھ بیل کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہیں، برآمد کنندگان نے بھی ریکارڈ 1.25 لاکھ بیل خریدی ہیں، جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں صرف 3200 بیل خریدی گئی تھیں، فی الحال ملک بھر میں 520 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔
شعبے سے وابستہ ماہرین کی تشویش کی ایک بڑی وجہ مختلف اداروں کے پیداوار سے متعلق متضاد اعداد و شمار ہیں، پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی کپاس کی پیداوار 15.2 لاکھ بیل ہے، جو محکمہ کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس) پنجاب کے اندازے 30.81 لاکھ بیل سے 100 فیصد سے بھی زیادہ کم ہے۔
سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ساجد محمود نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان کا 2025 کپاس سیزن اب ایک ’فیصلہ کن مرحلے‘ میں داخل ہو چکا ہے جہاں فصل کی تیز رفتار آمد اب سست پڑ رہی ہے۔
ان کے مطابق کپاس کی معیشت کی پیچیدگی ’عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، طلب و رسد کے تغیرات، درآمدی حجم میں اضافے اور مقامی منڈی کی غیر یقینی صورتحال‘ سے جڑی ہے، انہوں نے تصدیق کی کہ پندرہ روزہ رپورٹ میں کمی واضح طور پر چنائی کی رفتار میں سست روی کی نشاندہی کرتی ہے، جو ’سیزن کے معمول سے پہلے ختم ہونے اور منڈی میں عارضی دباؤ‘ کا سبب بن سکتی ہے۔
قیمتوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’کچھ کاشتکار اور بیوپاری جان بوجھ کر پھٹی کی ترسیل کو محدود کر کے قیمتیں بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘، لیکن چین، امریکا اور برازیل جیسے ممالک میں بڑی فصلوں اور عالمی طلب میں کمی کے باعث اس اثر کو محدود رکھا گیا ہے۔