افغانستان میں پاکستان کا ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کا مفروضہ کس طرح غلط ثابت ہوا؟
معاملات اُس دن سے بگڑتے چلے گئے کہ جب اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کے سرینا ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ پیش کیے جانے پر فاتحانہ (اور کسی حد تک قبل از وقت) انداز میں کہا تھا کہ ’فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔ وہ اس وقت چینل 4 کی معتبر نمائندہ لنزے ہلسم کے سوال پر حیران ہوئے تھے۔
یہ وہ دن تھے کہ جب امریکی انخلا جس کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا جبکہ ان کے جانشین جو بائیڈن نے 2021ء میں عملی طور پر اسے مکمل کیا، عمل میں آیا تھا۔ طالبان دوبارہ اقتدار میں آ چکے تھے کیونکہ اشرف غنی حکومت کی افواج نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کے رہنما ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔
یہ حد سے زیادہ امید افزا الفاظ بالکل اسی طرح غیر حقیقت پسندانہ تھے جیسے 1979ء میں سوویت یونین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی رہی ہے۔ اس وقت پاکستان نے انتہائی مذہبی عقائد کے حامل جنگجوؤں کو ہتھیار بھیجنے اور تربیت دینے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ہمارے ہی ملک کے لیے وجودی خطرہ پیدا کیا کیونکہ یوں یہ اجنبی نظریات یہاں (ہماری سرزمین) میں جڑ پکڑ گئے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی یونیورسٹیز کے کیمپسز میں یہ کہتے ہوئے احتجاج کرتے تھے کہ یہ پاکستان کی جنگ نہیں ہے اور ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے۔ مگر ہمیں ‘سوویت ایجنٹ ’ قرار دے دیا جاتا تھا اور اُس وقت کی ضیا الحق نواز اسلامیہ جمعیتِ طلبہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا تھا جو فوجی آمر کے شانہ بشانہ، مکمل طور پر اس غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والے، مسلح اور بیرونی حمایت یافتہ ‘جہاد’ کے حق میں تھی۔
اگرچہ آج کئی سابق سینئر فوجی افسران اس حقیقت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں مگر 1986ء کے جینیوا معاہدوں کے بعد سوویت انخلا کے وقت ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کا معروف تصور بارہا سننے کو ملتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر خاصا تنگ ہے اور بھارت کے برعکس بعض علاقوں میں کم رسائی رکھتا ہے تو وہ افغانستان کی سرزمین کو دفاعی سرزمین کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان نے متعدد بار شکایت کی ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں میں بھارت ملوث ہے۔ یہ مؤقف بظاہر درست بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر ہم اسے درست تسلیم کر لیں تو پھر یہ ہمارے کئی دیرینہ قومی مفروضوں کو خود ہی غلط ثابت کر دیتا ہے خاص طور پر یہ مفروضے کہ پہلے سوویت یونین اور پھر مغربی (یعنی امریکی) افواج کے خلاف جنگ میں افغانون کی حمایت کرنے سے پاکستان کو علاقائی تحفظ، دوستانہ ہمسایہ یا اسٹریٹجک فوائد حاصل ہوں گے۔
پائیدار دوستی کے بجائے اقتدار میں آنے والے طالبان نے اپنے نظریاتی بھائیوں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کیا کیونکہ دونوں ایک جیسے جہالت پر مبنی اور انتہا پسند نظریات کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔
نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں عوام اور سرحد پر مامور بہادر با وردی فوجیوں کو شہید کیا گیا۔ رواں سال موسمِ گرما میں بھارتی جارحیت کا نئی دہلی کے لیے اچھے نتائج سامنے نہ آنے کے بعد، ہم نے پاکستان کے فوجی و نیم فوجی فورسز کے اہلکاروں پر دہشتگردانہ حملوں میں قابلِ ذکر اضافہ دیکھا ہے۔
فوجی، نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر شہید کیے جا رہے ہیں، کوئی کھل کر نہیں کہے گا مگر پاکستان کے پاس فوجی کارروائیوں سمیت فضائی حملوں کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے سیکیورٹی فورسز کے حوصلے پست ہوں گے۔
کچھ مفکرین اور مصنفین اس تشدد میں اضافے کو ملک میں سیاسی عدم استحکام سے منسلک کریں گے جبکہ دیگر ملک میں حقیقی نمائندہ حکومت نہ ہونے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ وضاحتیں جزوی طور پر سچ ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت صرف اتنی ہی ہے اور اس سے زیادہ نہیں۔
پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے اور 2008ء سے 2016ء کے دوران فوجی آپریشنز نے پاکستان کو ترقی کی راہ میں پیچھے کی جانب دھکیلا ہے۔ یہ ماضی کی حکومت اور فوجی قیادت کے تذبذب کا براہ راست نتیجہ تھا جنہوں نے میدان جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو نظریاتی مذاکرات کی نذر کردیا۔
ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنے ہتھیاروں سمیت واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ان کے لیے کوئی شرائط طے نہیں کی گئیں۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر وہ اپنے اصل انتہائی عقائد کی طرف واپس لوٹ گئے اور انہوں نے تشدد کے ذریعے ان جہالت پر مبنی عقائد کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان طویل عرصے سے لہولہان ہے لیکن اس کے چند اتحادی ہی اس کے درد کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ حالیہ دہشت گردانہ حملوں اور گھات لگا کر جو جنگی کارروائیاں کی گئیں، پاکستان نے ان کا جواب دیا۔ لیکن پاکستان کے جن ممالک کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے ہیں، انہوں نے اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر ان حملوں کو خود پر حملہ تصور نہیں کیا۔
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کا تعلق افغان طالبان کے اندرونی تناؤ سے ہو سکتا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ قندھار میں طالبان کی اہم قیادت اور حقانی نیٹ ورک جیسے دیگر گروہوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں جن کی پاکستان نے طویل عرصے سے ایک دوست اتحادی کے طور پر حمایت کی ہے۔
تاہم حالیہ دنوں پاکستانی سرزمین پر ہونے والے کئی حملے جن کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی، ایسے علاقوں سے کیے گئے ہیں جو حقانی نیٹ ورک کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
یہ دو میں سے کسی ایک بات کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ یا تو حقانی نیٹ ورک کنٹرول کھو رہا ہے یا یہ خفیہ طور پر حملوں کی حمایت کرتے ہوئے دوہرا کھیل کھیل رہا ہے۔ ماہرین اس پر جو بھی رائے رکھتے ہوں، حالیہ صورتِ حال پاکستان کے لیے کسی طور بھی امید افزا نہیں۔
لوگ بار بار افغانوں کی غیرملکی حملہ آوروں سے نمٹنے کی تاریخ کا حوالہ دے رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی قوت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں واقعی انہوں نے غیر ملکی افواج کو اپنی سرزمین سے بےدخل کیا ہے مگر یہ بات اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ بیرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اگر سی آئی اے کی سرپرستی میں اسلحے سے لیس مزاحمت نہ کی جاتی تو سوویت کی ریڈ آرمی کو افغان زمین سے نکالنا ممکن نہ تھا۔ اسی طرح امریکا نے بھی فوجی جانی نقصان کے ساتھ ساتھ، مالی اعتبار سے بھاری قیمت چکائی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنی رقم امریکا نے افغانستان میں فوجیں رکھنے پر خرچ کی، اگر اس کا صرف ایک تہائی بھی مختلف گروہوں، سرداروں اور دھڑوں کو خریدنے میں لگا دیتا تو شاید اس کے لیے قیامِ امن زیادہ آسان ہوتا۔ امریکا اکثر پینٹاگون کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔
پاکستان کی افغانستان پر حملہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں لیکن اگر افغان طالبان یونہی اپنی سرزمین سے متحرک ٹی ٹی پی پر لگام ڈالنے میں بےبسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے تو پاکستان پھر مجبوراً اپنی فضائی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ان شرپسندوں اور گروہوں کے خلاف منظم حملے جاری رکھے گا جو سرحد پار سے آ کر ہمارے شہریوں اور فوجیوں کو شہید کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے معاونین اور ان کے عسکری انفرااسٹرکچر کو بھی نشانہ بنانا ہوگا۔
کابل کے ساتھ بار بار مذاکرات کے بعد، شاید وہ وقت آچکا ہے کہ طالبان کو یہ باور کروایا جائے کہ پاکستان پر دہشت گردانہ حملوں کی اجازت دینے کی انہیں قیمت چکانا ہوگی۔ پاکستان اس درد کو خاموشی سے قبول نہیں کرے گا۔
بلاشبہ عام شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے پاکستان کا کوئی بھی حملہ مکمل انٹیلی جنس معلومات پر مبنی ہونا چاہیے۔ فوجی کارروائیوں میں کوئی بھی حادثاتی جانی نقصان ناقابل قبول ہے کیونکہ اس کے مزید منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@
