کسانوں کا حکومت سے گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ
حکومت کو گندم کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں اضافہ کر کے اسے 3 ہزار 500 روپے فی من مقرر کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، اس فیصلے کو پاکستان کسان رابطہ کمیٹی (پی کے آر سی) نے کسانوں کی مسلسل جدوجہد اور عوامی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی کے آر سی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق نے کہا کہ یہ اعلان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب کسان متحد ہو کر منظم تحریک چلاتے ہیں تو حکومت کو جھکنا پڑتا ہے۔
پی کے آر سی کے مطابق نئی قیمت اب بھی ناکافی ہے، تنظیم کا بنیادی مطالبہ تھا کہ گندم کی امدادی قیمت کم از کم 4 ہزار روپے فی من مقرر کی جائے تاکہ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت پوری ہو سکے اور کسانوں کو معقول منافع ملے۔
فاروق طارق نے حکومت کی پچھلی ’کسان مخالف پالیسی‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے گزشتہ سال عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایت پر اپنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کھاد، بیج، ڈیزل اور زرعی مزدوری سمیت بڑھتی ہوئی لاگت کے باوجود امدادی قیمت کو کم رکھنا کسانوں کے لیے بھاری نقصان کا باعث بنا، جس کے نتیجے میں اس سال گندم کی کاشت میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی، جو ملک کی خوراکی سلامتی کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔
فاروق طارق نے کہا کہ ایم ایس پی کے تعین میں تاخیر اور بے حسی دراصل آئی ایم ایف کے دباؤ میں بنائی گئی زرعی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف ہے، جب زراعت کو منافع اور منڈی کے اصولوں کے تابع کر دیا جاتا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ بوجھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں پر پڑتا ہے، جو پہلے ہی قرض، مہنگائی اور موسمی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔
پی کے آر سی نے سندھ حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ فوراً دھان (چاول) کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرے تاکہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے لاکھوں کسانوں کو استحصال سے بچایا جا سکے۔
اگرچہ حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے، فاروق طارق نے اسے عارضی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ زرعی پالیسی میں بنیادی اصلاحات کی طرف پہلا قدم ہے، ان کے مطابق یہ فیصلہ ’حکومتی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف‘ ہے، کیونکہ کسانوں کے مطالبات کو مزید نظرانداز کرنا ملک میں خوراک کے بحران کو مزید گہرا کر دے گا۔
پی کے آر سی نے حکومت کے اس فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا کہ صوبوں کے درمیان گندم کی نقل و حرکت پر عائد تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں، تنظیم کے مطابق یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس بات کا اقرار کہ سابقہ پابندیاں اور ذخیرہ اندوزی کی حکمتِ عملی سیاسی طور پر ناکام ہو چکی تھیں۔