جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد عبوری ہیڈکوچ کا ٹیسٹ کرکٹ میں کم مواقع ملنے پر اظہار افسوس
پاکستان کے عبوری ریڈ بال ہیڈ کوچ اظہر محمود نے جمعرات کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں دوسرے ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں آٹھ وکٹوں سے شکست کے بعد قومی ٹیم کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کم مواقع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اظہر محمود نے میچ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس سے پہلے جنوری میں ایک ٹیسٹ میچ کھیلا تھا اور اب اگلا میچ مارچ میں ہوگا، ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیاد پر ٹیسٹ میچز کھیلنے کی ضرورت ہے، پچھلے سال ہم نے صرف 4 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں، اگلے سال ہمیں 11 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں، تو جب ہم ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے تب ہی ہمیں دباؤ برداشت کرنے کا پتہ چلے گا‘۔
اس سے قبل پاکستان نے جنوری میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کھیلی تھی جو 1-1 سے برابر رہی، دسمبر 2024 میں جنوبی افریقہ نے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کو 2-0 سے ہرایا تھا، اسی سال اکتوبر میں پاکستان نے ملتان میں انگلینڈ کو 2-1 سے شکست دی تھی، جبکہ اگست میں راولپنڈی میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 2-0 سے وائٹ واش کیا تھا۔
اظہر محمود نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس بار کی پچز ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں ’بہتر‘ تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں اسپن بھی تھی، لیکن بیٹسمینوں کے لیے رنز بنانے کے مواقع بھی موجود تھے، اور فاسٹ بولرز کو بھی مدد ملی، اگر ہم ایسی پچز بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی اسی طرح کی وکٹیں دیں تاکہ ہمارے بلے باز سیکھ سکیں کہ ان حالات میں کیسے کھیلنا ہے‘۔
اظہر محمود نے مزید کہا کہ ’جب آپ باقاعدگی سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے ہیں تو آپ مشکل لمحات کا مقابلہ کرنا سیکھتے ہیں، لیکن اگر آپ صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہیں اور خراب فارم میں چلے جائیں تو سیکھنے کا موقع نہیں ملتا، میرا خیال ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ ہی اس کا بہترین حل ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ میچ میں سب سے بڑا نقصان 93 رنز پر 22 وکٹوں کے گرنے کا تھا، جو قابلِ قبول نہیں۔
ہیڈ کوچ نے کہا کہ ہم نے حالیہ کیمپس میں کھلاڑیوں کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کے ٹاپ 7 بیٹسمین 250-260 رنز کرتے ہیں تو لوئر آرڈر کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے، یہی دونوں ٹیموں کے درمیان اصل فرق تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کھلاڑیوں کو اپنے مضبوط شاٹس کے بارے میں علم ہونا چاہیے، آپ متھوسوامے کی مثال لے سکتے ہیں، اس نے اپنی اننگز کے دوران سوئپ اور ریورس سوئپ سے رنز بنائے، میرے خیال میں ہم بہت زیادہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے، حالانکہ ہمیں مخالف باؤلرز کو چیلنج کرنا چاہیے تھا، یہ سب ذہنی مضبوطی کا تقاضا کرتا ہے، کھلاڑی کو اپنے جارحانہ اور دفاعی آپشنز کی مکمل سمجھ ہونی چاہیے‘۔
اظہر محمود نے کہا کہ ’میچ کا ٹرننگ پوائنٹ وہ تھا جب ہم پہلی اننگز میں 300 سے زائد رنز کے بعد اپنی آخری 5 وکٹیں بہت جلد گنوا بیٹھے، اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ متھوسوامے اور ربادا نے شاندار بیٹنگ کی، لیکن ہم نے جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز میں تقریباً 5 آسان کیچز چھوڑے، جب آپ کسی مضبوط ٹیم کے خلاف ایسا کرتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے‘۔
پاکستان اب جنوبی افریقہ کے خلاف 28 اکتوبر سے یکم نومبر تک راولپنڈی اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلے گا، جس کے لیے نیشنل سلیکشن کمیٹی نے سلمان علی آغا کی قیادت میں 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 3 ایک روزہ میچوں کی سیریز 4 سے 8 نومبر تک فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں کھیلی جائے گی، جس کے بعد 11 سے 15 نومبر تک راولپنڈی میں سری لنکا کے خلاف تین ون ڈے میچوں کی سیریز ہوگی۔