وفاقی کابینہ کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری کا کیا مطلب ہے؟
وفاقی کابینہ نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کی اصولی منظوری دے دی، حتمی فیصلے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔
یہ فیصلہ پنجاب کابینہ کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری کے بعد کیا گیا، جس کی سمری 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی تھی۔
16 اکتوبر حکومت پنجاب نے آج اعلان کیا تھا کہ وہ مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی سفارش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ اعلان مریدکے میں ٹی ایل پی اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد صوبے بھر میں 2716 مظاہرین کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔
17 اکتوبر کو پنجاب کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی منظوری دیتے ہوئے سمری وفاقی حکومت کو ارسال کردی تھی۔
یاد رہے کہ ٹی ایل پی نے اپنے احتجاج کو ’ غزہ سے اظہارِ یکجہتی مارچ’ قرار دیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اسلام آباد پہنچ کر امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کرے گی، تاہم 13 اکتوبر کو علی الصبح ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مذہبی جماعت کا احتجاجی کیمپ ختم کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا، جس سے جھڑپیں، افراتفری اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھیں۔
مزید یہ کہ تحریک لبیک پاکستان کے خلاف درج مقدمات کی تعداد درجنوں تک پہنچ گئی تھی، جن میں سے کم از کم 39 لاہور میں درج ہوئے تھے، جبکہ ٹی ایل پی کی دوسری اور تیسری سطح کی قیادت کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا، جو گزشتہ چند برسوں میں پنجاب میں ٹی ایل پی کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس انتہا پسند جماعت کے خلاف کارروائی کے فیصلے کو کچھ اہم اجلاسوں سے جوڑا جا رہا ہے، جن میں ٹی ایل پی کے پرتشدد احتجاجات، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر جان لیوا حملے، اور مسیحی و احمدی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ کے واقعات پر غور کیا گیا۔
کسی جماعت پر پابندی کیسے عائد کی جاتی ہے؟
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) ان افراد اور گروہوں کی فہرستیں مرتب کرتی ہے جنہیں دہشت گرد یا دہشت گردی سے وابستہ قرار دیا جاتا ہے، ایسی فہرستوں میں شامل افراد کو سفری اور مالی پابندیوں جیسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے فورتھ شیڈول میں ایسے افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں جو دہشت گرد تنظیموں یا سرگرمیوں سے وابستہ ہوں، اس فہرست کے ذریعے ان افراد پر کڑی نگرانی اور پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
تاریخی طور پر، اس فہرست میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حزب التحریر جیسے عسکری گروہ، لشکرِجھنگوی جیسی فرقہ وارانہ تنظیمیں، جیش محمد جیسی شدت پسند جماعتیں، اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے علیحدگی پسند گروہ شامل رہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں حکام نے اس دائرے کو مزید وسیع کیا ہے تاکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مزید افراد کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے۔
اگرچہ پاکستان میں حکومتیں اکثر سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالف جماعتوں پر پابندی کی کوشش کرتی رہی ہیں، لیکن کسی سیاسی جماعت پر حتمی طور پر پابندی عائد کرنے کا اختیار حکومت کے پاس محدود ہے۔
صوبائی حکومت کسی جماعت پر پابندی کی سفارش کر سکتی ہے، جیسا کہ ٹی ایل پی کے معاملے میں کیا گیا، تاہم آئین کے آرٹیکل 17(2) کے مطابق وفاقی حکومت یہ سفارش سپریم کورٹ کو بھجوا سکتی ہے اگر یہ قرار دیا جائے کہ متعلقہ جماعت ’ پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔’
ماہرین کے مطابق کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے۔
آرٹیکل کے مطابق’ وفاقی حکومت اس اعلان کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی، جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔’
روزنامہ ڈان کی ایک سابقہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق حکومت کسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے یا تو آئین کے آرٹیکل 17(2) کے تحت کارروائی کر سکتی ہے یا الیکشنز ایکٹ 2017 کی دفعہ 212 کے تحت جماعت کی تحلیل کی درخواست دے سکتی ہے۔
دوسرے طریقہ کار میں بھی حکومت اعلان کرتی ہے لیکن معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے اکثر سیاسی جماعتوں پر پابندی کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
پابندیوں کی طویل تاریخ
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
گزشتہ سال اکتوبر میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی کا اعلان کیا گیا تھا، یہ تحریک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔
مزید برآں، جولائی 2024 میں وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، جب وہ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بننے کے قریب تھی۔
اس سے پہلے، شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ پر مارچ 1971 میں پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے 160 میں سے 76 منتخب اراکین کو غدار قرار دے کر نااہل کیا گیا تھا، اس اقدام کے خلاف احتجاج ایک بڑے عوامی تحریک میں تبدیل ہوا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، جہاں شیخ مجیب الرحمٰن پہلے وزیر اعظم بنے تھے۔
ٹی ایل پی پر بھی اس سے پہلے 2021 میں پابندی لگائی گئی تھی، جب اس کے احتجاج کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے، یہ پابندی وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت منظور کی تھی۔
تاہم چند ماہ بعد جماعت کی نظرثانی درخواست اور مسلسل احتجاج کے بعد یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی اور اس کے سربراہ سعد رضوی کو رہا کر دیا گیا تھا۔