دنیا

غزہ میں 20 ہزار پاکستانی فوجی بھیجنے کی رپورٹ جھوٹی اور مکمل طور پر من گھڑت ہے، وزارت اطلاعات

پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اس کے ساتھ کسی قسم کا سفارتی یا عسکری رابطہ نہیں اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کے اصولی مؤقف پر قائم ہے، ایکس پر بیان

وزرات اطلاعات نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور اسرائیلی ایجنسی موساد کے درمیان کسی مبینہ معاہدے کے تحت غزہ میں امن فوج کے طور پر اپنے دستے بھیجنے پر رضامند ہو گیا ہے۔

وزارت نے اس خبر کو ’مکمل طور پر من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی معاہدہ، بات چیت یا سمجھوتہ پاکستان کی قیادت، سی آئی اے یا موساد کے درمیان نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا ایک بنیادی ستون انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا قیام ہے، جو زیادہ تر مسلمان اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی، سرکاری ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے جلد باضابطہ اعلان متوقع ہے۔

حساس نوعیت کے باعث نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرنے والے سرکاری و عسکری ذرائع نے بتایا کہ حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان مشاورت ’آخری مراحل‘ میں ہے، ذرائع کے مطابق مشاورت کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں حصہ لینے کے حق میں فیصلہ کر سکتا ہے۔

قبل ازیں، بھارتی نیوز آؤٹ لیٹ فرسٹ پوسٹ نے سی این این نیوز 18 کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ اعلیٰ خفیہ ذرائع کے مطابق پاکستان غزہ میں 20 ہزار تک فوجی تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے، ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اسرائیلی ایجنسی موساد اور امریکی سی آئی اے کے سینیئر حکام سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں۔

رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوجیوں کا کردار مغربی ہدایات کے مطابق علاقے کو مستحکم کرنے پر مشتمل ہوگا۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ پاکستانی افواج، اسرائیل اور غزہ کی مسلح تنظیموں کے درمیان بفر فورس کے طور پر کام کریں گی، سیکیورٹی تحفظ فراہم کریں گی، جبکہ تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی اصلاحات میں مدد فراہم کریں گی۔

مزید کہا گیا کہ فوجی تعیناتی کے بدلے میں امریکا نے پاکستان کو معاشی مراعات دینے کا وعدہ کیا ہے، جن میں ورلڈ بینک قرضوں میں نرمی، ادائیگیوں کی مؤخر تاریخیں اور خلیجی ممالک کے ذریعے مالی معاونت شامل ہے۔

خبر سامنے آنے کے بعد سیاست دانوں اور صحافیوں نے سوشل میڈیا پر تشویش اور تنقید کا اظہار کیا۔

اس معاملے پر ردِعمل دیتے ہوئے وزارتِ اطلاعات نے ایک بیان میں کہا کہ یہ خبر مکمل طور پر من گھڑت ہے، پاکستان کی قیادت، سی آئی اے یا موساد کے درمیان کوئی ملاقات، سمجھوتہ یا ’ڈیل‘ نہیں ہوئی۔

مزید کہا گیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اس کے ساتھ کسی قسم کا سفارتی یا عسکری رابطہ نہیں اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔

وزارت نے واضح کیا کہ نہ تو پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) اور نہ ہی کسی معتبر پاکستانی یا بین الاقوامی ذریعے نے غزہ میں فوجی تعیناتی سے متعلق کوئی تصدیق یا اطلاع جاری کی ہے۔

بیان میں سی این این نیوز 18 کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ادارہ ماضی میں بھی پاکستان مخالف غلط معلومات اور غیر مصدقہ ’انٹیلی جنس ذرائع‘ پر مبنی خبریں شائع کرنے کی تاریخ رکھتا ہے۔

وزارت نے پوری کہانی کو من گھڑت پروپیگنڈا قرار دیا جس کی کوئی حقیقی یا ادارہ جاتی بنیاد نہیں، بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے غزہ میں فوج بھیجنے کی کوئی تجویز پیش کی، نہ اس پر اتفاق کیا اور نہ ہی کوئی بات چیت ہوئی۔

مزید کہا گیا کہ سی آئی اے، موساد، فیلڈ مارشلعاصم منیر معاہدے اور 20 ہزار فوجی بھیجنے کا دعویٰ دانستہ طور پر جھوٹا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مسخ کرنا اور مسلمان ممالک میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے، ایسے جھوٹے بیانیے خطے میں بداعتمادی پھیلانے اور تقسیم پیدا کرنے کی سازش ہیں۔

انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کا مجوزہ مینڈیٹ غزہ میں امن و امان برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کو محفوظ بنانا اور انسانی امداد و تعمیرِ نو میں عبوری فلسطینی انتظامیہ کی مدد شامل ہے۔

اسلام آباد میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ شمولیت اخلاقی ذمہ داری اور سفارتی ضرورت دونوں کے تحت زیرِ غور ہے، ان کے مطابق پاکستان اُن 8 ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے 2024 کے آخر میں پیش کی گئی امن تجویز کی بنیاد رکھی تھی، جس پر بعد ازاں امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن منصوبے کی بنیاد رکھی گئی۔

چونکہ آئی ایس ایف اس منصوبے کا ایک کلیدی جزو ہے، اس لیے حکومتی حلقوں کے مطابق پاکستان کی شمولیت ’استحکام اور اعتبار‘ کی علامت ہوگی۔

پاکستان کا یہ موقف بھی ہے کہ اس کی افواج کو بین الاقوامی امن مشنز میں شاندار تجربہ حاصل ہے، پاکستان اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں سب سے بڑے دستے بھیجنے والے ممالک میں شامل ہے اور اب تک 40 سے زائد آپریشنز میں 2 لاکھ سے زیادہ اہلکار تعینات کر چکا ہے۔

حکومتی مؤقف کے مطابق یہ تجربہ نہ صرف پاکستانی افواج کو تنازعات کے بعد کے حساس ماحول میں مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے بلکہ آئی ایس ایف کی ساکھ کو بھی مضبوط بناتا ہے۔

اخلاقی و عملی پہلوؤں کے علاوہ خارجہ پالیسی کے تقاضے بھی حکومت کے اس مؤقف کو تقویت دیتے ہیں، حکومتی عہدیداروں کے مطابق غزہ کے استحکام کے لیے اس مشن میں شامل ہونا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو مزید بہتر بنا سکتا ہے۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات، ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ صدارت کے بعد بتدریج بہتر ہو رہے ہیں، سرکاری ذرائع کے مطابق امریکی حمایت یافتہ اس کثیرالقومی اقدام میں پاکستان کی شمولیت اقتصادی تعاون، دفاعی حمایت اور علاقائی اثرورسوخ کے نئے مواقع کھول سکتی ہے۔

تاہم، حکام نے خبردار کیا کہ تعیناتی کے قانونی فریم ورک پر ابھی وضاحت نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ تعیناتی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ہو۔

اس کے باوجود اس مشن میں شمولیت خطرات سے خالی نہیں، غزہ کی صورتحال اب بھی انتہائی نازک ہے اور پاکستان کے اندر عوامی رائے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔

زیادہ تر پاکستانی عوام فلسطینی تحریک کے حامی ہیں اور وہ امریکی نگرانی میں قائم کسی فورس کو اسرائیلی مفادات کے حق میں یا فلسطینی مزاحمت سے غداری کے مترادف سمجھ سکتے ہیں۔

ایک حکومتی عہدیدار نے کہا کہ یہ ایک مشکل مگر فیصلہ کن انتخاب ہے۔