فرانس کے سینیٹ سے نئے ’ریپ‘ قوانین منظور، رضامندی کو شامل کرلیا گیا
یورپی ملک فرانس کے سینیٹ نے نئے ’ریپ‘ قوانین کی منظوری دے دی، جس کے بعد ریپ کی تعریف میں رضامندی (consent) کو لازمی قرار دے دیا گیا، اب مذکورہ بل پر صدر کے دستخط ہوں گے، جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فرانس کی گیسلے پیلیکوٹ نامی خاتون کو سابق شوہر کی جانب سے درجنوں افراد سے ’ریپ‘ کروانے کا کیس سامنے آنے کے بعد فرانس میں ’ریپ‘ قوانین میں تاریخی تبدیلی کردی گئی۔
سینیٹ نے 29 اکتوبر کو نئی قانون سازی کی منظوری دے دی، جس میں ریپ کی تعریف میں رضامندی (consent) کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
اب تک فرانسیسی فوجداری قانون میں ریپ کو ’تشدد، جبر، دھمکی یا حیرت‘ سے کیا جانے والا جنسی عمل قرار دیا جاتا تھا، اس میں رضامندی کا واضح ذکر نہیں تھا اور پراسیکیوٹرز کو ’ریپ‘ کی نیت ثابت کرنا پڑتی تھی۔
نئی شق کے مطابق رضامندی ’آزادانہ، باخبر اور انکار کے قابل‘ ہونی چاہیے، خاموشی یا مزاحمت نہ کرنا رضامندی نہیں سمجھا جائے گا۔
نئے قانون سے قبل اگر کسی پر ریپ کا الزام لگایا جاتا تھا تو ریپ کا الزام لگانے والی خاتون کے وکلا کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ ملزم نے کس طرح اور کیوں ریپ کیا؟
فرانس کے ریپ قوانین میں مذکورہ تبدیلی گیسلے پیلیکوٹ کے کیس کے بعد کی گئی، دسمبر 2024 میں ان کے سابق شوہر ڈومینک پلیکوٹ نے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بار بار نشہ آور دوائی دے کر بے ہوش کیا اور آن لائن درجنوں مردوں کو بلایا جو ان کے ساتھ ریپ کرتے رہے۔
عدالتی کارروائی سے معلوم ہوا تھا کہ کم از کم 35 ملزمان نے ریپ سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ گیسلے سوئی ہوئی تھیں۔
اپنی ہی بیوی کو مردوں سے ریپ کروانے کے الزام میں ملزم کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ دوسرے ملزمان کو بھی سزائیں دی گئی تھیں اور مذکورہ کیس کے بعد ’ریپ‘ قوانین میں تبدیلی کی مہم تیز کی گئی تھی۔