پاکستانی چاول کی برآمدات مالی سال 2026 کی پہلی سہ ماہی میں 28 فیصد کم ہو گئیں
پاکستان کی چاول کی برآمدات مالی سال 2026 کی پہلی سہ ماہی میں 28 فیصد کم ہو گئیں، جس سے اس شعبے میں پالیسی اور ریگولیٹری رکاوٹوں کے باعث مسابقتی صلاحیت متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ چاول کی مجموعی برآمدات گزشتہ سال کی اسی مدت کے 9 لاکھ 91 ہزار 146 ٹن سے کم ہو کر 7 لاکھ 12 ہزار 797 ٹن رہ گئی ہیں۔
سب سے زیادہ کمی باسمتی چاول کے شعبے میں دیکھی گئی ہے، جو 45.5 فیصد کم ہو کر ایک لاکھ 37 ہزار 66 ٹن رہ گئی، جب کہ نان باسمتی چاول کی برآمدات 22.1 فیصد کمی کے ساتھ 5 لاکھ 75 ہزار 731 ٹن ٹن رہیں، جو پچھلے سال 7 لاکھ 64 ہزار 700 ٹن تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کمی مالیاتی، زرِ مبادلہ اور انتظامی اقدامات کے امتزاج کا نتیجہ ہے، جنہوں نے پاکستانی چاول کو بین الاقوامی منڈی میں، خاص طور پر بھارتی چاول کے مقابلے میں کم مسابقتی بنا دیا ہے۔
برآمد کنندگان نے پالیسی رکاوٹوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا
چاول کے تجزیہ کار حمید ملک کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی پالیسی نے برآمدی فنانسنگ کو بھارت کے مقابلے میں تقریباً 600 بیسس پوائنٹس مہنگا کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روپے کی منظم قدر میں اضافے (جو فصل کے موسم میں 284.70 روپے سے بڑھ کر 280.85 روپے فی ڈالر ہو گیا) نے برآمدی قیمتوں کو مزید بڑھا دیا۔
اس کے برعکس، بھارت کا ریزرو بینک فصل کے دوران روپے کی بتدریج کمی کی اجازت دیتا ہے جس سے بھارتی برآمدکنندگان کو قیمتوں میں فائدہ ملتا ہے۔
برآمدکنندگان نے فائنل ٹیکس ریجیم (ایف ٹی آر) سے نارمل ٹیکس ریجیم (این ٹی آر) میں منتقلی کو بھی نقصان دہ قرار دیا ہے، کیونکہ اس سے ان کے منافع کے مارجن کم ہو گئے ہیں۔
مزید برآں، فائٹوسینیٹری معیارات کے غیر مستقل نفاذ اور ایف آئی اے کی مبینہ ہراسانی کو بھی ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے ایک عہدیدار کے مطابق بھارت کی جانب سے چاول برآمدات پر پابندی ختم کرنے، باسمتی کی کم از کم برآمدی قیمت (ایم ای پی) ہٹانے اور برآمدات کو زیرو ریٹنگ دینے کے فیصلے نے خطے میں مقابلے کو مزید بھارت کے حق میں کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کموڈیٹی ہورڈنگ ایکٹ 1977 پر عملدرآمد میں کمزوری کی وجہ سے فصل کے آغاز پر ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے اور مقامی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
ریپ کے عہدیدار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مستقل بارڈر ٹریڈ پالیسی متعارف کرائے، ایکسپورٹ گارنٹی اور انشورنس نظام بنائے اور ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرے تاکہ برآمدی شعبے کو سہارا مل سکے۔
گارڈ ایگریکلچرل ریسرچ اینڈ سروسز کے سی ای او شہزاد علی ملک نے بتایا کہ ستمبر اور اکتوبر میں برآمدات میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے، کیونکہ نئی فصل کی آمد سے قیمتوں میں استحکام آیا ہے۔
انہوں نے رواں سیزن میں پیداوار میں اضافے کی امید ظاہر کی اور کہا کہ اس سال بر وقت کاشت اور موافق موسمی حالات نے بہتر نتائج دیے ہیں، جب کہ پچھلے سالوں میں جلد کاشت کے باعث گرمی کے دباؤ اور پیداواری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔