دنیا

ٹرمپ کے ساتھ چین-امریکا تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھنے کو تیار ہوں، چینی صدر کی ملاقات میں گفتگو

امریکی صدر نے ملاقات کو کامیاب اور چینی صدر کو سخت مذاکرات کار قرار دے دیا، دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کبھی کبھار اختلافات ہونا معمول کی بات ہے، شی جن پنگ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جمعرات کو جنوبی کوریا کے ایک ایئربیس پر ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں کمی لانے کے حوالے سے امید ظاہر کی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے ساحلی شہر بوسان میں ہونے والی یہ ملاقات، جو 2019 کے بعد ان کی پہلی دوبدو ملاقات تھی، ٹرمپ کے دورہ ایشیا کا آخری مرحلہ تھی، اس دورے میں ٹرمپ نے جنوبی کوریا، جاپان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی پیش رفت کے معاہدوں کو بھی نمایاں کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ملاقات بہت کامیاب رہے گی، البتہ وہ ایک سخت مذاکرات کار ہیں‘۔ دوسری جانب شی جن پنگ نے ٹرمپ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کبھی کبھار اختلافات ہونا معمول کی بات ہے۔

صدر شی جن پنگ نے بتایا کہ چند دن قبل دونوں ممالک کے مذاکرات کار ایک دوسرے کے بنیادی خدشات کو حل کرنے کے لیے بنیادی اتفاق رائے تک پہنچے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر چین-امریکا تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھنے کے لیے کام جاری رکھنے کو تیار ہوں‘۔

چینی وزارت خارجہ نے رپورٹ کیا ہے کہ صدر شی نے کہا کہ ’ہماری مشترکہ قیادت میں چین اور امریکا کے تعلقات مجموعی طور پر مستحکم رہے ہیں، چین اور امریکا کو شراکت دار اور دوست ہونا چاہیے، یہی تاریخ کا سبق اور موجودہ وقت کی ضرورت ہے، ہماری قومی خصوصیات مختلف ہیں، اس لیے ہر معاملے میں یکساں نقطہ نظر رکھنا ممکن نہیں‘۔

’دنیا کی 2 بڑی معیشتوں میں وقتاً فوقتاً اختلافات فطری بات ہے‘

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً اختلافات آنا فطری بات ہے، آپ اور میں چین۔امریکا تعلقات کے نگہبان ہیں، لہٰذا ہمیں ہر طرح کی آندھیوں، لہروں اور چیلنجز کے باوجود درست سمت میں رہتے ہوئے اس تعلق کو آگے بڑھانا ہے، میں آپ کے ساتھ مل کر چین۔امریکا تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھنے اور دونوں ممالک کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے تیار ہوں‘۔

صدر شی نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں چین کی معیشت میں 5.2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ عالمی تجارت میں اشیا کی درآمد و برآمد میں 4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، یہ کامیابی اندرونی اور بیرونی مشکلات کے باوجود آسان نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ چینی معیشت ایک وسیع سمندر کی مانند ہے، جو بڑی، مضبوط اور امکانات سے بھرپور ہے، ہمیں ہر قسم کے خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت اور اعتماد حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے 20 ویں اجلاس نے آئندہ 5 سالہ اقتصادی و سماجی ترقی کے منصوبے کے لیے سفارشات منظور کی ہیں، پچھلی 7 دہائیوں سے چین مسلسل اسی خاکے پر عمل پیرا ہے تاکہ ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔

’ہمارا کسی ملک کو چیلنج یا اس کی جگہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں‘

چینی صدر نے کہا کہ ’ہمارا کسی ملک کو چیلنج یا اس کی جگہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں، ہمارا مقصد ہمیشہ اپنی ترقی کو بہتر بنانا اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ترقی کے مواقع بانٹنا رہا ہے، یہی ہماری کامیابی کا راز ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ چین اصلاحات کو مزید گہرا کرے گا، معیشت کو مزید متنوع کرے گا، بہتر معیار کی ترقی کو فروغ دے گا اور مشترکہ خوشحالی کے ہدف کو آگے بڑھائے گا، اس سے چین اور امریکا کے درمیان تعاون کے مواقع مزید بڑھیں گے۔

صدر شی نے کہا کہ دونوں ممالک کی ٹیموں نے اہم اقتصادی و تجارتی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے اور مختلف امور کے حل پر اتفاق رائے پیدا کیا ہے، اب ضروری ہے کہ فالو اپ اقدامات جلد طے کیے جائیں تاکہ یہ سمجھوتے مؤثر طریقے سے نافذ ہوں اور دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت میں بھی اعتماد پیدا ہو۔

صدر شی جن پنگ نے تسلیم کیا کہ چین۔امریکا اقتصادی و تجارتی تعلقات میں حالیہ برسوں میں اتار چڑھاؤ رہا ہے، مگر اس سے دونوں ممالک نے سبق بھی سیکھا ہے، کاروباری تعلقات کو دونوں ممالک کے درمیان رکاوٹ یا تنازع کے بجائے استحکام اور پیش رفت کا محرک بننا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ فریقین کو وسیع تر مفاد میں سوچنا چاہیے، اور انتقام کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، مذاکرات باہمی احترام، مساوات اور باہمی مفاد کی بنیاد پر جاری رہنے چاہئیں تاکہ اختلافات کم اور تعاون کے مواقع بڑھتے رہیں۔

’بات چیت تصادم سے بہتر ہے‘

صدر شی نے کہا کہ بات چیت تصادم سے بہتر ہے، چین اور امریکا کو مختلف سطح اور ذرائع سے رابطہ برقرار رکھنا چاہیے تاکہ باہمی افہام و تفہیم بڑھے، دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی ہجرت، ٹیلی کام فراڈ، منی لانڈرنگ، مصنوعی ذہانت اور وبائی امراض کے خلاف تعاون کے وسیع امکانات ہیں، متعلقہ محکموں کو بات چیت اور تبادلوں کو مضبوط بنا کر مشترکہ مفاد میں عملی تعاون کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ چین اور امریکا کو علاقائی اور عالمی فورمز پر بھی مثبت تعامل کو فروغ دینا چاہیے، دنیا اس وقت کئی بڑے مسائل سے دوچار ہے، اور دونوں بڑی طاقتیں مل کر اپنی ذمہ داری نبھا سکتی ہیں تاکہ اپنے عوام اور دنیا کے لیے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین آئندہ سال 2026 میں اے پی ای سی اجلاس کی میزبانی کرے گا جبکہ امریکا اگلے سال جی-20 اجلاس کی میزبانی کرے گا، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی مدد سے ان اجلاسوں کو کامیاب بنانا چاہیے تاکہ عالمی معیشت کو فروغ ملے اور اقتصادی حکمرانی بہتر ہو۔

صدر شی عظیم رہنما اور میرے پرانے دوست ہیں، ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے کہا کہ صدر شی سے ملاقات میرے لیے اعزاز کی بات ہے، چین ایک عظیم ملک ہے اور صدر شی ایک قابل احترام عظیم رہنما اور میرے پرانے دوست ہیں، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور چین کے تعلقات ہمیشہ شاندار رہے ہیں اور مستقبل میں مزید بہتر ہوں گے، ہم دونوں ممالک کو مزید ترقی کی بلندیوں تک لے جائیں گے، چین امریکا کا سب سے بڑا شراکت دار ہے، اور مل کر ہم دنیا کے لیے بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔

چینی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں صدور نے اقتصادی، تجارتی اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے اور عوامی سطح پر رابطوں میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔

یہ بھی طے پایا کہ دونوں رہنما باقاعدہ رابطے برقرار رکھیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اگلے سال کے اوائل میں چین کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی اور صدر شی کو امریکا کے دورے کی دعوت دی،اس موقع پر کائی چی، وانگ ای اور ہی لیفینگ سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔

رائٹرز کے مطابق ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (اے پیک) اجلاس کے موقع پر ہونے والی یہ ملاقات تقریباً 2 گھنٹے جاری رہی، ملاقات کے بعد ٹرمپ نے شی جن پنگ سے مصافحہ کیا اور انہیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے آئے، جس کے بعد ٹرمپ کو ایئرپورٹ پر سرخ قالین کے ساتھ الوداع کیا گیا۔

دونوں ممالک نے تاحال بات چیت کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔

چینی اسٹاک مارکیٹ 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

چینی اسٹاک مارکیٹ 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور یوآن کی قدر بھی تقریباً ایک سال کی بلند ترین سطح پر آگئی کیونکہ سرمایہ کاروں کو امید ہے کہ تجارتی کشیدگی میں کمی آئے گی، دنیا بھر کی منڈیاں، وال اسٹریٹ سے لے کر ٹوکیو تک حالیہ دنوں میں ریکارڈ سطحوں پر پہنچ چکی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار عندیہ دیا کہ وہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں کسی سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں، کیونکہ اتوار کو کوالالمپور میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی تھی۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور جغرافیائی مقابلے کی فضا برقرار ہے، اس لیے کسی طویل المدت مفاہمت کے امکانات محدود ہیں۔

تجارتی جنگ نے اس وقت دوبارہ شدت اختیار کی جب چین نے ہائی ٹیک صنعتوں میں استعمال ہونے والے نایاب معدنیات کی برآمدات پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے جواب میں 100 فیصد اضافی محصولات اور امریکی سافٹ ویئر سے تیار کردہ مصنوعات کی چین کو برآمد پر ممکنہ پابندیوں کی دھمکی دی، جس سے عالمی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔

ملاقات سے قبل ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ ’جی ٹو جلد ملاقات کرنے والے ہیں‘، ایک اور پیغام میں انہوں نے اعلان کیا کہ امریکا فوری طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات میں اضافہ کرے گا، کیونکہ چین کا جوہری ذخیرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاہم انہوں نے اس اعلان سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق چین نے نایاب معدنیات کی برآمدی پابندیوں کو ایک سال کے لیے مؤخر کرنے اور امریکی کسانوں کے لیے اہم سویابین کی خریداری دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے، یہ سب ایک ’بنیادی فریم ورک‘ کے تحت طے پانے والے سمجھوتے کا حصہ ہے جسے دونوں رہنما حتمی شکل دیں گے۔

رائٹرز کے مطابق سربراہی اجلاس سے قبل چین نے کئی ماہ بعد پہلی بار امریکا سے سویابین کی خریداری کی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان آئندہ سال مزید ملاقاتوں کی بنیاد رکھ سکتی ہے، جن میں ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے دورے بھی شامل ہوں گے، تاہم ٹرمپ فوری نتائج چاہتے ہیں، کیونکہ دنیا بھر کی کاروباری برادری ان مذاکرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی مصنوعات پر چینی محصولات میں کمی کے بدلے بیجنگ سے فینٹانائل کے خام کیمیکل کی ترسیل روکنے کا وعدہ چاہتے ہیں، فینٹانائل ایک انتہائی مہلک مصنوعی منشیات ہے جو امریکا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے۔

انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ملاقات میں ٹک ٹاک کے معاملے پر بھی کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے، کیونکہ اگر اس کے چینی مالکان نے اپنی امریکی شاخ فروخت نہ کی تو ایپ پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔

گزشتہ تجارتی معاہدے، جن کے تحت محصولات میں کمی اور نایاب معدنیات کی فراہمی بحال ہوئی تھی، 10 نومبر کو ختم ہونے والے ہیں، اسکاٹ بیسنٹ نے بتایا کہ چین نے فینٹانائل کے کیمیکل کی سپلائی کم کرنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ امریکا نے اس کے بدلے کیا رعایت دی ہے۔

چین 20 فیصد فینٹانائل ٹیکس ختم کرنے، حساس امریکی ٹیکنالوجی پر برآمدی پابندیاں نرم کرنے اور چینی جہازوں پر نئی امریکی بندرگاہی فیسوں میں نرمی کا خواہاں ہے۔

دوسری جانب خطے میں تائیوان کے معاملے پر کشیدگی بدستور موجود ہے، اتوار کو چینی سرکاری میڈیا نے اطلاع دی کہ چین کے ایچ-6 کے بمبار طیاروں نے تائیوان کے قریب مشقیں کیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ تائیوان کو امریکا-چین بات چیت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اگرچہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ ممکنہ طور پر بیجنگ کے دباؤ میں جزیرے کے حوالے سے رعایت دے سکتے ہیں، امریکی قانون کے تحت واشنگٹن تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے ضروری وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔

جنوبی کوریا کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پا گیا، امریکی صدر

امریکی صدر نے پھر وزیراعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عظیم شخصیات قرار دے دیا

پاک-بھارت جنگ میں 7 ’بالکل نئے اور خوبصورت طیارے‘ مار گرائے گئے، ٹرمپ