سندھ ہائیکورٹ نے ٹی ایل پی پر پابندی کےخلاف درخواست اعتراض لگا کر نمٹا دی
سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر عائد پابندی کے خلاف دائر درخواست اعتراض لگا کر نمٹا دی۔
ڈان نیوز کے مطابق کالعدم ٹی ایل پی پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، قائم مقام چیف جسٹس ظفر احمد راجپوت نے درخواست گزار کے وکیل دریافت کیا کہ آپ نے جو درخواست دائر کی، وہ کس سیکشن کے تحت ہے، اور اس میں درخواست گزار کون ہے؟
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار ٹی ایل پی کے ممبر ہیں، یہ ایک سیاسی جماعت ہے اور الیکشن کمیشن میں قانون کے تحت رجسٹرڈ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس پابندی کا حل اگر موجود نہ ہوتا تو پھر اس درخواست کی ضرورت ہوتی، جب آپ متعلقہ فورم سے رجوع سمیت تمام طریقے استعمال کر چکے ہوں، اس وقت درخواست قابل سماعت ہوتی ہے، تمام چیزوں کو ملانے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عدالت نے دریافت کیا کہ ہمیں بتائیں اس سال فلسطین کے لیے اس سے قبل کون سا احتجاج کیا گیا تھا؟ یہ کوئی اسلام کا معاملہ نہیں، ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ 24 اکتوبر کے نوٹیفکیشن کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے درخواست گزار کے پاس متعلقہ فورم موجود ہے، اُسے استعمال کیا جاسکتا ہے
پابندی کا پس منظر
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کی جانب سے حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی معاہدہ ہونے کے بعد غزہ میں مظالم کے خلاف صوبہ پنجاب سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے تک احتجاجی مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس اعلان کے بعد پارٹی کے سربراہ سعد رضوی اپنے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے، تاہم مریدکے شہر میں داخل ہونے کے بعد پنجاب پولیس نے آپریشن کرتے ہوئے مارچ کے شرکا کو منتشر کر دیا تھا، تاہم سعد رضوی اور ان کے بھائی اس کے بعد سے اب تک منظر عام سے غائب ہیں۔
مارچ کے دوران پر تشدد کارروائیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے مقدمات درج کیے تھے، ان مقدمات میں سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی بھی نامزد ہیں۔
بعد ازاں پنجاب حکومت نے صوبے میں پرتشدد احتجاج اور سرکاری املاک کے نقصان کا ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر پنجاب کابینہ نے پابندی کی سفارشات وفاقی کابینہ کا ارسال کی تھیں۔
وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کے لیے پنجاب کابینہ کی سفارشات کو منظور کرلیا تھا۔
وفاقی وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے نوٹی فکیشن دیگر اداروں کو بھی ارسال کردیا تھا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا تھا۔
حکومت نے ٹی ایل پی کے دہشت گردی سے مبینہ روابط کے شواہد کی بنیاد پر یہ اقدام اٹھایا تھا، نوٹی فکیشن کی کاپیاں تمام صوبوں کے گورنرز، چیف سیکریٹریز، آئی جیز اور خفیہ اداروں کو بھی ارسال کی گئی تھیں۔
نیکٹا، ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فوری اقدامات کی ہدایت بھی جاری کی گئی، تحریک لبیک پاکستان کے امیر کو بھی نوٹی فکیشن کی کاپی ارسال کر دی گئی تھی۔
نوٹی فکیشن کے بعد ٹی ایل پی کے تمام اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا تھا، ٹی ایل پی کوئی سیاسی اور سماجی سرگرمی نہیں کرسکے گی اور اس کا نام لینے پر بھی پابندی ہے۔
ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے حتمی فیصلے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا، وفاقی حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی تیاری کرلی ہے، وزارت داخلہ نے حتمی رپورٹ وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو بھجوا دی تھی۔