حکومت کا آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل اہم رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ
حکومتِ پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ گورننس اور بدعنوانی سے متعلق دیرینہ رکی ہوئی تشخیصی رپورٹ (جی ڈی سی اسسمنٹ رپورٹ) کو آئی ایم ایف کے آئندہ ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے پہلے شائع کرے گی، جس میں پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری دی جائے گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام (ای ایف ایف) کے تحت آئی ایم ایف کی تیار کردہ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگنوسٹک رپورٹ کی اشاعت اور اس کے بعد وفاقی و صوبائی سطح پر گورننس کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ایک عملی منصوبے کی تیاری ایک اہم اسٹرکچرل بینچ مارک ہے۔
یہ ڈیڈ لائن پہلے جولائی کے آخر تک تھی، پھر اسے اگست اور اکتوبر 2025 کے آخر تک بڑھایا گیا، مگر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی، اس میں تاخیر کی بڑی وجہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی و حقائق پر مبنی اختلافات بتائے جاتے ہیں۔
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق ہم نے اس اسٹرکچرل بینچ مارک کی دوبارہ توثیق کی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ باہمی سمجھ بوجھ کے بعد یہ وعدہ کیا ہے کہ رپورٹ کو اس ماہ کے آخر یا اگلے ماہ کے آغاز میں ہونے والے (آئی ایم ایف ایگزیکٹو) بورڈ اجلاس سے قبل شائع کر دیا جائے گا۔
اہلکار نے بتایا کہ یہ ایک نہایت جامع مشق تھی جو آئی ایم ایف کی تکنیکی اور قانونی ٹیموں نے اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جیسے عالمی اداروں کے تعاون سے انجام دی۔
رپورٹ کے مسودے کا متعدد بار پاکستانی فریقین، جن میں انسدادِ بدعنوانی کے ادارے، اعلیٰ عدلیہ، تحقیقاتی ایجنسیاں، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون شامل تھیں، کے ساتھ تبادلہ کیاگیا تاکہ بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے بہترین نتیجہ حاصل کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قواعد و ضوابط کی تشریح پر مقامی اور بین الاقوامی سیاق و سباق میں سخت اختلافات تھے، مگر اب یہ مرحلہ ختم ہوچکا ہے اور رپورٹ کا حتمی مسودہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر بھیج دیا گیا ہے تاکہ اشاعت سے قبل آخری جائزہ لیا جا سکے۔
دونوں فریقین نے اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے کہ رپورٹ کی اشاعت اور اس کی سفارشات کی بنیاد پر گورننس ایکشن پلان کے درمیان وقفہ کم کیا جائے تاکہ اصلاحات پر جلد عمل شروع کیا جاسکے۔
پہلے یہ طے تھا کہ جی سی ڈی رپورٹ جولائی میں شائع ہوگی اور 3 ماہ بعد، یعنی اکتوبر کے آخر تک ایکشن پلان جاری کیا جائے گا، تاہم اب امکان ہے کہ یہ منصوبہ دسمبر سے پہلے جاری کر دیا جائے گا تاکہ اسے اگلی ششماہی جائزہ رپورٹ میں شامل کیا جا سکے۔
سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کے حوالے سے اب بھی عمل درآمد میں کمی پائی جاتی ہے، اگرچہ سول سرونٹس کے مرکزی قانون میں ترمیم کر کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران بشمول ان کے اہل خانہ اور ذاتی ملکیت کے اثاثوں کے لیے الیکٹرانک فائلنگ کو لازمی قرار دیا گیا ہے، مگر اس پر یکساں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
آئی ایم ایف کا ایک جائزہ مشن رواں سال کے اوائل میں پاکستان آیا تھا اور اس نے سپریم کورٹ، وزارت قانون و انصاف، آڈیٹر جنرل، ارکانِ پارلیمان، قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
اس مشن نے ایک جامع رپورٹ تیار کی جس میں سرکاری مالیاتی نظم، ایف بی آر کے ٹیکس نظام، اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو کے طریقہ کار میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی گئی۔
موجودہ نظامِ گورننس کے تحت زیادہ تر سرکاری افسران اپنے یا اپنے اہل خانہ کے اثاثے نہ تو ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فراہم کرتے ہیں، جبکہ احتساب کے مؤثر ادارہ جاتی طریقہ کار کی بھی کمی ہے۔
مزید یہ کہ کئی ادارے، جن میں ریگولیٹری باڈیز بھی شامل ہیں، ایسے انکشافات سے مستثنیٰ ہیں، جس کے باعث بدعنوانی کے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں، اسی بنا پر پاکستان بدعنوانی کے عالمی اشاریوں میں مسلسل بلند درجہ بندی پر ہے۔
آئی ایم ایف طویل عرصے سے شفاف ڈیٹا، احتیاطی اقدامات، حفاظتی نظام اور پالیسی رہنما اصولوں پر زور دیتا آ رہا ہے تاکہ عوامی اختیارات کے غلط استعمال اور پالیسیوں میں کمزور فیصلہ سازی سے ملکی معیشت اور ترقی کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔
پیرس میں قائم ایف اے ٹی ایف نے بھی ایسے ہی کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اصلاحات کی سفارشات دی تھیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 14 اکتوبر کو 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے دوسرے جائزے اور 1.4 ارب ڈالر کے ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فنڈ (آر ایس ایف) کے پہلے جائزے پر اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے تحت آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت ایک ارب ڈالر اور آر ایس ایف کے تحت 20 کروڑ ڈالر کی قسط ملے گی، بورڈ کا اجلاس تاحال طے نہیں ہوا، تاہم حکام کے مطابق یہ 15 نومبر کے بعد کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے۔