خواتین کی حیثیت شادی یا طلاق سے متاثر نہیں ہوتی، سپریم کورٹ کا دو ٹوک فیصلہ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ خواتین کی قانونی و سماجی حیثیت شادی یا طلاق سے متاثر نہیں ہوتی، عدالت نے اپنے دو ٹوک فیصلے میں کہا کہ خواتین کو آئینی اور بنیادی حقوق ہر حال میں حاصل رہتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعرات کو پہلے دیے گئے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کا عوامی کاموں میں حصہ لینا کوئی خصوصی رعایت نہیں بلکہ ایک ایسا حق ہے جو انہیں بہت عرصے تک نہیں دیا گیا۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ جب خواتین تعلیم، انتظامیہ، پالیسی، صحت اور انصاف کے شعبوں میں کام کرتی ہیں تو ادارے زیادہ تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور حکمرانی بہتر ہوتی ہے۔
انہوں نے خیبر پختونخوا سروس ٹریبونل، پشاور کے 14 فروری 2024 کے حکم کو کالعدم قرار دیا۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے مارچ کے ایک اور کیس میں کہا تھا کہ خواتین کے قانونی حقوق، شخصیت اور آزادی شادی سے ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا دارومدار شادی پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے جمعرات کو کہا کہ خواتین کا عوامی زندگی میں برابر حصہ لینا صرف مالی خودمختاری کے لیے نہیں بلکہ یہ معاشرتی ترقی، اچھی حکمرانی اور آئینی جمہوریت کے لیے بھی ضروری ہے۔
یہ بات عالمی سطح پر پائیدار ترقی کے اہداف اور دیگر ملکوں کے آئینی قوانین سے بھی تسلیم شدہ ہے، جو عوامی خدمات میں مرد و خواتین کے مساوی مواقع کی حمایت کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے سامنے تنازع یہ تھا کہ کیا شادی ایک بیٹی کو اس کوٹے کے تحت تقرری کے اہل ہونے سے روک سکتی ہے، جو ان بچوں کے لیے مخصوص ہے جن کے والدین سرکاری ملازمت کے دوران فوت ہو جائیں یا معذور ہو جائیں۔
یہ کیس فرخ ناز کا تھا، جو کے پی تعلیم محکمہ کی ملازمہ ہیں اور اپریل 2022 میں وہ اپنی والدہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ پر تقرر ہوئیں۔
فرخ ناز کی کرک میں پرائمری اسکول ٹیچر کی تقرری 2023 میں بغیر اطلاع واپس لے لی گئی، کیونکہ وہ شادی شدہ ہو گئی تھیں، یہ فیصلہ فروری 2022 کے وضاحتی خط کی بنیاد پر کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شادی شدہ خواتین کو اس کوٹے کے تحت تقرری کا فائدہ نہیں ملے گا۔
بعد میں 28 اپریل 2023 کو وضاحت کی گئی کہ اگر شادی شدہ بیٹی اپنے شوہر سے الگ ہو جائے اور والدین پر منحصر ہو تو دوبارہ تقرری کے لیے اہل ہو سکتی ہے۔
فرخ ناز نے اپنی برطرفی کے خلاف محکمانہ اپیل دی، جو اگست 2023 میں مسترد ہو گئی، پھر انہوں نے کے پی ٹریبونل میں اپیل کی، جو فروری 2024 میں خارج کر دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے 11 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ قانون ساز اور پالیسی بنانے والے خواتین کو خودمختار افراد کے طور پر دیکھیں اور قوانین بناتے یا سمجھاتے وقت ان کی شخصیت کو مردانہ یا شادی کے نظریات کے تابع نہ کریں۔
خواتین کو الگ یا دوسرا سمجھنا، خاص طور پر شادی کی بنیاد پر، ان کی عزت اور برابری پر حملہ ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزارہ کی برطرفی جیسی کارروائیاں، جو پدرانہ قوانین یا پالیسی کی تشریح پر مبنی ہوں، نہ صرف خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ معاشرے اور آنے والی نسلوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں، کیونکہ خواتین کا منفرد تجربہ اور نقطہ نظر معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ شادی عورت سے اس کی شخصیت یا آئینی حقوق نہیں چھینتی، شادی صرف اس کے قانونی موقف کو بدلتی ہے، بنیادی حقوق کو نہیں۔
آئین کے مطابق عورت بھی مرد کی طرح شخص ہے اور اس کی شخصیت شادی یا طلاق سے متاثر نہیں ہوتی، یہ سوچ کہ بیٹی ہمیشہ والد پر اور بعد میں شوہر پر منحصر ہوتی ہے، آئین کے مطابق غلط ہے۔
ایسی سوچ عورت کی فردیت کو کمزور کرتی ہے اور اسے خودمختار شخص کے طور پر پہچاننے کی بنیاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے امریکی فلسفیہ مارٹھا نس بام کے قول کا حوالہ دیا کہ ایک معاشرہ جو خواتین کو مکمل انسانی صلاحیت کے برابر مواقع نہیں دیتا، خود انصاف سے محروم رہتا ہے۔