پاکستان

وفاقی آئینی عدالت کے متوقع چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری کل متوقع

سپریم کورٹ سے 4 اور 2 ہائیکورٹس کے 2 ججز بھی ارکان نامزد، پہلی بار تقرری صدر مملکت کریں گے، بعد میں ججوں کی تعداد میں اضافہ صرف پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہوگا۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان متوقع طور پر آنے والی وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے چیف جسٹس مقرر کیے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف سی سی میں ابتدائی طور پر 6 دیگر جج شامل ہوں گے، چیف جسٹس کے علاوہ 4 سپریم کورٹ اور 2 ہائی کورٹس سے لیے جائیں گے۔

ابتدائی ارکان کے طور پر جن ناموں پر غور کیا جا رہا ہے ان میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس باقر نجفی (سپریم کورٹ)، جب کہ جسٹس کے کے آغا (سندھ ہائی کورٹ) اور جسٹس روزی خان بڑیچ (چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ) شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایف سی سی کی ابتدائی تعداد کا تعین صدارتی حکم کے ذریعے کیا جائے گا، جب کہ بعد میں ججوں کی تعداد میں اضافہ صرف پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے ممکن ہوگا۔

مزید بتایا گیا کہ صدرِ مملکت, چیف جسٹس ایف سی سی سے حلف لیں گے، جب کہ باقی جج نئے تعینات ہونے والے چیف جسٹس سے حلف اٹھائیں گے۔

وزارت قانون کے حکام نے تصدیق کی کہ صدرِ مملکت وزیرِ اعظم کی سفارش پر باقاعدہ تقرری کے احکامات جاری کریں گے، مجوزہ ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کو نئے تشکیل شدہ عدالت میں تقرریوں کے لیے آئینی اختیار حاصل ہوگا۔

وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو 27ویں آئینی ترمیمی بل میں شامل عدالتی اصلاحات کے پیکج کے حصے کے طور پر دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

یہ ترمیم سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو منظم کرنے اور آئینی مقدمات کے جلد فیصلے کے ذریعے عدالتی نظام کی موثریت اور وقار کو بڑھانے کا مقصد رکھتی ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق ایف سی سی کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ کے کام کے بوجھ کو کم کرنا، آئینی مقدمات کے بروقت فیصلے کو یقینی بنانا اور عدلیہ کی آزادی اور ساکھ کو مضبوط بنانا ہے۔

ایک علیحدہ آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں ہے۔

یہ سب سے پہلے چارٹر آف ڈیموکریسی (سی او ڈی) میں متعارف کرایا گیا تھا، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2006 میں دستخط کیے تھے۔

چارٹر آف ڈیموکریسی میں ایک ایسی خصوصی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی تھی، جو صرف آئینی معاملات سے نمٹے تاکہ سپریم کورٹ اپنی اپیلیٹ ذمہ داریوں پر زیادہ توجہ دے سکے۔

یہ خیال 26ویں آئینی ترمیم کے دوران بھی زیرِ بحث آیا، لیکن جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کی مزاحمت کے باعث مؤخر کر دیا گیا تھا۔

موجودہ تجویز کے مطابق، ایف سی سی کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی، جو سپریم کورٹ کے ججوں (65 سال) سے 3 سال زیادہ ہے۔

نئی عدالت سپریم کورٹ کی عمارت میں نہیں ہوگی، حکام کے مطابق اس کا قیام وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کی عمارت میں اسلام آباد میں متوقع ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کی عمارت کی تیسری منزل پر منتقل کیا جائے گا۔

تاہم، شرعی عدالت کے ذرائع نے بتایا کہ اس کے جج اپنی اچانک منتقلی سے ناخوش ہیں اور انہوں نے اپنے تحفظات چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کیے ہیں۔

ادھر، ایف سی سی کے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب کی تیاریاں جاری ہیں، جو 13 نومبر (کل) کو متوقع ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری آج 12 نومبر کو 27ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری دے سکتے ہیں، جس کے بعد نئی عدالتی اتھارٹی کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

حکومت نے مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کیلئے 7 جج صاحبان کے نام شارٹ لسٹ کر لیے

سابق ججز اور وکلا کا چیف جسٹس سے 27ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ

27ویں آئینی ترمیم سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہونے کا خدشہ، قانونی ماہرین کا انتباہ