دنیا

امریکا کا غزہ میں امن فورس قائم کرنے کا منصوبہ، سلامتی کونسل میں قرارداد پیش

کئی ممالک اس منصوبے پر تحفظات رکھتے ہیں، متحدہ عرب امارات نے قانونی ابہام دور ہونے تک شرکت سے انکار کیا ہے، اردن نے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، ترکیہ کو اسرائیل کے دباؤ پر منصوبے سے الگ کر دیا گیا ہے۔

امریکا نے غزہ میں امن و استحکام کے لیے دو سالہ بین الاقوامی فورس کے قیام کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں قرارداد جمع کرادی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا نے غزہ میں امن قائم رکھنے کے لیے دو سال کے لیے ایک نئی فورس بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی منظوری کے لیے اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ترمیم شدہ قرارداد جمع کرائی ہے۔

یہ مسودہ پیر کے روز پیش کیا گیا جس کے بعد منگل کی صبح تک رکن ممالک کو اعتراضات دینے کا وقت دیا گیا ہے اور اگر کوئی اعتراض نہ آیا تو یہ قرارداد اس ہفتے جمعرات یا جمعہ کو ووٹنگ کے لیے پیش کی جائے گی۔

یہ فورس بورڈ آف پیس (بی او پی) کے تحت کام کرے گی جس کے سربراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے، یہ بورڈ غزہ کی تعمیرِ نو، معیشت کی بحالی اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے کام کی نگرانی کرے گا۔

امریکا نے اس قرارداد میں پورا 20 نکاتی ٹرمپ امن منصوبہ شامل کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل طور پر امریکی قیادت میں آگے بڑھے گا۔

تاہم، کئی ممالک اس منصوبے پر تحفظات رکھتے ہیں، متحدہ عرب امارات نے قانونی ابہام دور ہونے تک شرکت سے انکار کیا ہے، اردن نے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، آذربائیجان صرف مکمل جنگ بندی کے بعد حصہ لینے پر راضی ہے، جب کہ ترکیہ کو اسرائیل کے دباؤ پر منصوبے سے الگ کر دیا گیا ہے۔

انڈونیشیا، پاکستان اور کچھ دیگر مسلم ممالک شرکت پر آمادہ تو ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے مددگار بن کر صرف حماس کو غیر مسلح کرنے کے مشن میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔

اسرائیل نے بھی شکایت کی ہے کہ اسے منصوبہ بندی سے الگ رکھا جا رہا ہے اور اس کا کردار صرف امداد پہنچانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

ادھر عالمی بینک نے اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قرارداد کے اس حصے کی تائید کرتا ہے، جس کے تحت دو سال کے لیے بی او پی فورس کو مینڈیٹ دیا جائے گا اور بینک کو غزہ کی تعمیرِ نو میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی۔

قرارداد میں بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مالی مدد فراہم کریں، اس مقصد کے لیے ایک خاص فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور تخمینے کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو پر تقریباً 70 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

دوسری طرف امریکی میڈیا کے مطابق خود ٹرمپ انتظامیہ کے اندر بھی اس منصوبے پر خدشات موجود ہیں۔

امریکی جریدے ’پولیٹیکو‘ نے بتایا ہے کہ پچھلے مہینے جنوبی اسرائیل میں ایک دو روزہ اجلاس ہوا، جس میں تقریباً 400 افراد نے شرکت کی، ان میں امریکی حکومتی عہدیدار، رینڈ کارپوریشن اور این جی اوز کے نمائندے شامل تھے، اس اجلاس کی قیادت امریکی سیکیورٹی کوآرڈینیٹر مائیکل فینزل نے کی۔

رپورٹ کے مطابق اجلاس کے شرکا کو شک ہے کہ کیا واقعی ایک بین الاقوامی فورس کو غزہ میں مؤثر طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

پولیٹیکو کے مطابق اجلاس میں غزہ کی موجودہ صورتِ حال، ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ کی مشاورتی رپورٹس اور امریکی حکومتی سلائیڈز پیش کی گئیں۔

ایک امریکی دفاعی اہلکار کے مطابق یہ دستاویزات انتظامیہ کے گہرے خدشات کو ظاہر کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل صورتحال عوامی بیانات سے زیادہ محتاط ہے، کیونکہ اب بھی کئی مشکلات باقی ہیں، جیسے فوجی دستے اکٹھے کرنا، قانونی طریقہ کار طے کرنا، تعمیرِ نو کے لیے فنڈز جمع کرنا اور حماس سمیت خطے کے ممالک کی رضامندی حاصل کرنا۔

تاہم، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ایڈی واسکیز نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے تاریخی مشرقِ وسطیٰ امن منصوبے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس دن صدر ٹرمپ نے اپنا 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا، اس کے بعد سے مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں اور ہم جنگ بندی قائم رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل جاری رکھیں گے۔