پاکستان

پاکستان کی انٹرنیٹ آزادی میں گزشتہ 15 برس کے دوران نمایاں کمی

2011 سے 2015 کے دوران پاکستان کی انٹرنیٹ آزادی تیزی سے گری اور اس کا اسکور 55 سے بڑھ کر 69 (یعنی آزادی میں کمی) تک پہنچ گیا، امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کی رپورٹ

پاکستان کو عالمی جمہوری نگران ادارے کی حالیہ رپورٹ میں انٹرنیٹ آزادی کے حوالے سے 100 میں سے 27واں نمبر دیا گیا ہے، اور اسے ’غیر آزاد‘ (Not Free) قرار دیا گیا ہے، رپورٹ میں حکومت کی سنسرشپ بڑھانے کی کوششوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یکم جون 2024 سے 31 مئی 2025 کے عرصے کا احاطہ کرنے والی امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) بلاک کرنے کی دھمکیاں دیں اور سائبر کرائم قانون میں ایسی ترامیم اپنائیں، جنہیں انسانی حقوق کے گروپس نے غلط استعمال کے قابل قرار دیا ہے۔

دوسری جانب، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کہیں زیادہ کھلے ہوئے ہیں اور انہیں ’جزوی طور پر آزاد‘ (Partly Free) قرار دیا گیا ہے، جن کے آزادی اسکور بالترتیب 51، 53 اور 45 ہیں، افغانستان سے متعلق اسکور حاصل نہیں کیا جا سکا۔

درجہ بندی میں سب سے نیچے چین، میانمار، ایران اور روس ہیں جن کے اسکور بالترتیب 9، 9، 13 اور 17 ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انٹرنیٹ آزادی میں پچھلے 15 برس کے دوران بدترین تنزلی کا شکار ہونے والے ممالک (پاکستان، مصر، روس، تُرکیہ اور وینز ویلا) میں حکومتوں نے اپنے اقتدار کے چیلنجز کے جواب میں آن لائن ماحول پر کنٹرول سخت کر دیا ہے۔

2011 سے 2015 کے دوران، پاکستان کی انٹرنیٹ آزادی تیزی سے گری اور اس کا اسکور 55 سے بڑھ کر 69 (یعنی آزادی میں کمی) تک پہنچ گیا۔

2012 سے پاکستان کا اسٹیٹس ’جزوی آزاد‘ سے ’غیر آزاد‘ میں بدل گیا، جو بڑھتی ہوئی پابندیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے دورانِ رپورٹ ناقص انٹرنیٹ معیار اور واٹس ایپ، سگنل اور دیگر پلیٹ فارمز تک رسائی میں رکاوٹوں کی شکایت کی۔

مزید کہا گیا کہ تحقیق میں پایا گیا کہ یہ رکاوٹیں ممکنہ طور پر ویب سائٹ مانیٹرنگ اور بلاکنگ کی نئی ٹیکنالوجی کے نفاذ سے جڑی ہوئی تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں انٹرنیٹ خدمات محدود کر دی گئی تھیں، کیونکہ سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا تھا، عمران خان پورے عرصے کے دوران قید میں رہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ پلیٹ فارم بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ فوجی تنازع کے دوران قابلِ رسائی ہوا، جو مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔

رپورٹ کے مطابق فوجی ادارہ پی ٹی آئی کے بانی اور اس کی پارٹی کے اثر کو کم کرنا چاہتا تھا۔

وی پی اینز

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مئی 2025 میں حکام نے ’ایکس‘ کو ان بلاک کیا، جو فروری 2024 سے بند تھا۔

حکام نے بار بار دھمکی دی کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کر دیا جائے گا، نومبر 2024 میں جاری کردہ رجسٹریشن شرائط میں صارفین کی شناخت سے متعلق معلومات فراہم کرنا لازمی تھا، تاہم ماہ کے آخر میں حکام نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک نہیں کیا جائے گا۔

مزید کہا گیا کہ وزارتِ قانون کی رائے کے مطابق حکومت کے پاس وی پی این بلاک کرنے کا قانونی اختیار موجود نہیں تھا۔

رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 میں پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں کی جانے والی ترامیم میں مبہم زبان استعمال کی گئی ہے، جسے حقوق کے گروپس کے مطابق حکام ناپسندیدہ آن لائن اظہار کو ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا کہ رپورٹنگ مدت کے دوران کم از کم 5 افراد کو توہینِ مذہب کے الزام میں، آن لائن مواد پوسٹ کرنے کے سلسلے میں، سزائے موت سنائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان مقابلہ جاتی کثیر جماعتی نظام کے تحت باقاعدگی سے انتخابات کراتا ہے، تاہم فوج انتخابات کے انعقاد، حکومت سازی اور پالیسیوں پر بہت زیادہ اثر رکھتی ہے، میڈیا کو خوفزدہ کرتی ہے اور طاقت کے بے دریغ یا غیر قانونی استعمال پر جواب دہ نہیں ہوتی۔

فریڈم آن دی نیٹ 2025 میں شامل 72 ممالک میں سے 28 میں صورتحال خراب ہوئی، جب کہ 17 نے مجموعی طور پر بہتری دکھائی۔

حکام اکثر شہری آزادیوں پر مخصوص نوعیت کی پابندیاں عائد کرتے ہیں، شدت پسند ریاست کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں اور مذہبی اقلیتوں سمیت اپنے مخالف سمجھے جانے والے لوگوں پر باقاعدگی سے حملے کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انٹرنیٹ آزادی مسلسل 15ویں سال بھی کم ہوئی ہے۔

کینیا اس عرصے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں حکام نے ٹیکس پالیسی کے خلاف ملک گیر احتجاج کے جواب میں جون 2024 میں تقریباً 7 گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ بند کر دیا اور سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا۔