پاکستان اور ڈبلیو ایچ او کا بچوں کے تحفظ کیلئے ایکشن پلان تیار کرنے کیلئے اشتراک
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور وزارتِ انسانی حقوق نے بچوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف قومی اسٹریٹجک ایکشن پلان تیار کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے، جس کا مقصد بچاؤ کے اقدامات کو مضبوط بنانا اور ملک کے 11 کروڑ 20 لاکھ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام پاکستان میں بچوں کے خلاف مختلف اقسام کے تشدد، جیسے قتل، جسمانی و جنسی تشدد، نفسیاتی اذیت اور غفلت کے خاتمے پر توجہ دے گا۔
یہ منصوبہ ایسے وقت میں ترتیب دیا جا رہا ہے، جب ملک کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں 5 سال سے کم عمر ہر 3 میں سے صرف ایک بچے کی پیدائش کا اندراج ہوتا ہے اور ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تجاویز کی یہ مشاورتی نشستیں گزشتہ ہفتے کراچی میں شروع اور اسلام آباد میں اختتام ذیر ہوئیں، جن میں ماہرین، شراکت دار، صوبوں اور خود مختار علاقوں کے نمائندے شریک ہوئے۔
ڈبلیو ایچ او کے بیان کے مطابق INSPIRE فریم ورک 7 حکمتِ عملیاں تجویز کرتا ہے، جن کا تعلق قوانین، سماجی رویّوں، محفوظ ماحول، نگہداشت فراہم کرنے والوں کی معاونت، مالی استحکام، خدماتِ ردعمل، اور زندگی کے ضروری مہارتوں سے ہے، اور یہ بچوں پر تشدد کم کرنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
11 کروڑ بچوں کو استحصال سے بچانے کیلئے مشاورت
وفاقی سیکریٹری برائے وزارتِ انسانی حقوق عبد الخالق شیخ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ منتشر کوششوں کو اب ایک مربوط، قومی، کثیر شعبہ جاتی حکمتِ عملی میں بدلنے کی ضرورت ہے، ایسی حکمتِ عملی جو تعلیم، صحت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کمیونٹی سسٹمز کو ایک پلیٹ فارم پر لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمتِ عملی ایک واضح اور متحد وژن مہیا کرے گی، جس میں قابلِ پیمائش اہداف، ادارہ جاتی ذمہ داریاں اور ایک مضبوط مانیٹرنگ و ایویلیوایشن فریم ورک شامل ہوگا۔
پیدائش کے اندراج کی کمی بچوں کے تحفظ میں بڑی رکاوٹ ہے، جس کے باعث بہت سے بچے کمزور اور غیر محفوظ رہ جاتے ہیں، بے گھر، مہاجر، اور غریب شہری بستیوں میں رہنے والے بچے استحصال، کم عمری کی شادیوں، اسمگلنگ اور چائلڈ لیبر کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔