چوہدری انوار کی جگہ فیصل ممتاز راٹھور کے آج وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب ہونے کا امکان
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پیر کے روز قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں موجودہ وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کو بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل راجا فیصل ممتاز راٹھور کو آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمعہ کی دوپہر اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی گئی، جس کے فوراً بعد اسپیکر چوہدری لطیف اکبر نے اسمبلی کا اجلاس پیر کو سہ پہر 3 بجے طلب کر لیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی پہلے ہی مطلوبہ 27 ارکان کی حمایت حاصل کر چکی تھی، لیکن اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں زور دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کرے تاکہ بھاری اکثریت یقینی بنائی جا سکے بلکہ آئندہ مخلوط حکومت میں بھی شامل ہو۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اعلان کیا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت تو کرے گی، لیکن پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکومت میں کوئی حصہ نہیں لے گی، چنانچہ پارٹی کے 2 سینئر اے جے کے رہنماؤں شاہ غلام قادر اور راجا فاروق حیدر نے پیپلز پارٹی کے 23 ارکان کے ساتھ اس قرارداد پر دستخط کیے تھے۔
دوسری جانب 5 رکنی پی ٹی آئی، جو اس وقت قائد حزب اختلاف کا منصب رکھتی ہے، اور 2 سنگل سیٹ جماعتیں (مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس عمل سے دور رہیں گی۔
اتوار کو پی ٹی آئی کے ’فاروڈ بلاک‘ کے مزید 2 اراکین وزیر برائے ابتدائی تعلیم دیوان علی چغتائی اور وزیر برائے اسمال انڈسٹریز کارپوریشن تقدیس کوثر گیلانی نے فریال تالپور سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا، جس سے پیپلز پارٹی کی اپنی حمایت 29 تک پہنچ گئی۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور انوارالحق کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے کابینہ رکن چوہدری قاسم مجید نے کہا کہ ہم عدم اعتماد کی تحریک بھاری اکثریت سے منظور کرائیں گے، مسلم لیگ (ن) بھی اس سلسلے میں ہماری حمایت کرے گی۔
تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عدم اعتماد تحریک کے محرکین، جنہوں نے وزیر اعظم انوارالحق پر ’طرز حکمرانی، سیاسی بیانئے اور محاذ آرائی والے رویے کے ذریعے ریاست کے آئینی، نظریاتی اور جمہوری ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچانے‘ کا الزام لگایا ہے، پیر کے اجلاس میں اپنے مؤقف کا دفاع کریں گے یا نہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تو تحریک عدم اعتماد کے کسی محرک نے خود استعفیٰ دیا اور نہ ہی وزیر اعظم انوارالحق نے ان الزامات کے جواب میں انہیں ہٹانے کی ہمت کی۔
ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم انوارالحق نے ان الزامات کو بچگانہ اور من گھڑت قرار دیا اور کہا کہ جن لوگوں نے یہ الزامات تحریر کیے وہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف چارج شیٹ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے الزامات لگانے والوں کو خود سمجھ نہیں آئی، اگر میرے کابینہ کے ساتھیوں کو اردو لکھنے میں مشکل تھی تو وہ مجھ سے کہہ دیتے، میں خود اپنے خلاف الزامات بہتر الفاظ میں لکھ دیتا۔
انوارالحق نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ’اسٹیٹس کو‘ کو توڑا اور تمام فیصلوں میں کابینہ کو شامل رکھا تھا۔
عدم اعتماد کے متن میں ’محاذ آرائی کے رویے‘ کے الزام پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی گزشتہ ڈھائی سال کی تقاریر، ویڈیوز اور عوامی بیانات سب ریکارڈ پر موجود ہیں، اور ان میں کہیں بھی ٹکراؤ کی سوچ موجود نہیں ہو سکتی، جس شخص نے یہ جملہ لکھا، اسے کم از کم معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔
اے جے کے آئین کے مطابق موجودہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد خود بخود اس رکن کے حق میں ووٹ شمار ہوتی ہے، جسے اسی قرارداد میں ان کا جانشین تجویز کیا گیا ہو۔
قرارداد کامیاب ہونے کے بعد فیصل راٹھور نئے وزیر اعظم منتخب ہوجائیں گے، جو 2021 میں اس اسمبلی کے وجود میں آنے کے بعد چوتھے وزیر اعظم ہوں گے۔
چوہدری قاسم مجید نے بتایا کہ نئے وزیر اعظم کے منگل کو صدر بیرسٹر سلطان محمود کے سامنے حلف اٹھانے کا امکان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی دیگر معززین کے ہمراہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کریں گے۔