پاکستان

تمباکو کمپنیوں نے طلب میں کمی کر کے اضافی پیداوار سے منافع کما لیا

بڑی کمپنیاں تو تمباکو زیادہ مقدار میں سنبھال کر رکھ سکتی ہیں، مگر غریب کسانوں کے پاس نہ پیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی گودام اس وجہ سے وہ ورجینیا اور وائٹ پٹا جیسے تمباکو کو زیادہ دیر تک نہیں رکھ سکتے اور مجبوراً فوراً بیچ دیتے ہیں، ماہرین

تمباکو خریدنے والی کمپنیوں نے 2026 کی فصل کی خریداری میں نمایاں کمی کر دی ہے، جس کی وجہ سے مقامی کاشتکاروں کو بھاری مالی نقصان ہوا ہے، جب کہ کمپنیوں نے اضافی پیداوار سے اربوں روپے کا منافع کمایا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ تمباکو خریدنے والی کمپنیوں نے 2026 کی فصل کم مقدار میں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے اپنی خریداری میں 1 کروڑ 31 لاکھ 83 ہزار کلو کی کمی کردی ہے، یہ مسلسل چوتھا سال ہے کہ خرید کم کی جارہی ہے اور اس فیصلے سے مقامی کسانوں کو بڑا مالی نقصان ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی پاکستانی اور غیر ملکی کمپنیاں تو تمباکو زیادہ مقدار میں سنبھال کر رکھ سکتی ہیں، مگر غریب کسانوں کے پاس نہ پیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی گودام اس وجہ سے وہ ورجینیا اور وائٹ پٹا جیسے تمباکو کو زیادہ دیر تک نہیں رکھ سکتے اور مجبوراً فوراً بیچ دیتے ہیں، جس سے انہیں مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

2026 کے لیے تمباکو کمپنیوں کی مجموعی طلب 6 کروڑ 16 لاکھ 27 ہزار کلوگرام مقرر کی گئی ہے، جس میں 5 کروڑ 81 لاکھ 84 ہزار کلوگرام فلو کیورڈ ورجینیا (ایف سی وی)، 3 لاکھ 60 ہزار کلوگرام ڈارک ایئر کیورڈ، 13 لاکھ 42 ہزار کلوگرام وائٹ پٹا، 13 لاکھ 81 ہزار کلوگرام برلی اور 3 لاکھ 60 ہزار کلوگرام سن کیورڈ تمباکو شامل ہیں۔

گزشتہ چار سالوں میں کمپنیوں نے مجموعی طور پر 2 کروڑ 38 لاکھ 73 ہزار کلوگرام کی طلب کم کی ہے، 2023 میں طلب 8 کروڑ 55 لاکھ کلوگرام تھی، جو 2024 میں کم ہوکر 7 کروڑ 73 لاکھ 22 ہزار، 2025 میں 7 کروڑ 48 لاکھ 10 ہزار اور 2026 میں مزید کم ہوکر 6 کروڑ 16 لاکھ 27 ہزار کلوگرام رہ گئی ہے۔

مالی سال کے پہلے 2 ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 4.44 فیصد اضافہ

زیادہ تر تمباکو خریداری غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے کی جاتی ہے، جب کہ ایک چھوٹا حصہ مقامی کمپنیوں اور چھوٹے کاروباری افراد کو دیا جاتا ہے، غیر ملکی کمپنیوں میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی (پی ٹی سی) اور فلپ مورس (پاکستان) لمیٹڈ سب سے بڑی خریدار ہیں، جن کی 2026 میں ایف سی وی تمباکو کی مشترکہ طلب 3 کروڑ 60 لاکھ کلوگرام سے زائد ہے، باقی طلب 78 مقامی کمپنیوں، بشمول خیبر ٹوبیکو پوری کریں گی۔

تمباکو کی ضروریات میں تبدیلی

پاکستان ٹوبیکو بورڈ (پی ٹی بی) کے مطابق 2026 میں ایف سی وی، ڈارک ایئر کیورڈ اور سن کیورڈ تمباکو کی طلب کم ہوئی ہے، جب کہ وائٹ پٹا اور برلی کی طلب میں معمولی اضافہ ہوا ہے، تاہم ایف سی وی اب بھی مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کی اولین ترجیح ہے، کیونکہ اسے سگریٹ سازی اور برآمدات میں استعمال کیا جاتا ہے۔

معروف کاشتکار اقبال شیوا نے کہا کہ کمپنیوں کی بنیادی توجہ ایف سی وی پر ہوتی ہے، جو سگریٹ اور برآمدات کے لیے ضروری ہے۔

اس حوالے سے پی ٹی بی نے کمپنیوں اور زمین مالکان کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سال کے لیے خریداری کے باقاعدہ معاہدے کریں اور انہیں بورڈ سے شیئر کریں تاکہ خریداری کے موسم میں مسائل نہ ہوں، جب کہ کاشتکاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ انہی معاہدوں کے مطابق کاشت کریں۔

قیمتوں میں فرق اور کم منافع

سابق پی ٹی بی ڈائریکٹر ایاز خان کے مطابق 2026 کی فصل کی طلب میں کمی کی ایک بڑی وجہ اوسط قیمت (ویپ) اور کم از کم مقررہ قیمت (ایم آئی پی) کے درمیان فرق ہے، رواں سال ویپ فی کلو 719 روپے تھی، جب کہ اضافی تمباکو کی ایم آئی پی فی کلو 545 روپے مقرر کی گئی۔

کمپنیوں نے اضافی تمباکو ایم آئی پی پر خرید کر فی کلو 174.8 روپے کا فائدہ اٹھایا، جس سے انہیں 6.17 ارب روپے کا منافع ہوا، لیکن یہ فائدہ کاشتکاروں تک منتقل نہیں ہوا۔

اس سال 3 کروڑ 53 لاکھ 50 ہزار کلوگرام اضافی تمباکو موجود تھا، جس سے کمپنیوں نے یہ منافع کمایا، دوسری طرف کاشتکار کم قیمتوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار رہے، کیونکہ ان کی سالانہ آمدن کا زیادہ تر دارومدار اسی فصل پر ہے۔

برآمدات میں اضافہ

اگرچہ مقامی طلب کم کردی گئی ہے، لیکن تمباکو کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، 24-2023 میں 2 کروڑ کلوگرام تمباکو برآمد کیا گیا، جو 25-2024 میں بڑھ کر 4 کروڑ 70 لاکھ کلوگرام ہوگیا، یعنی 135 فیصد اضافہ، اس کے باوجود کمپنیوں نے مقامی خریداری کم رکھی تاکہ اضافی تمباکو سستے داموں خریدنے سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

ایاز خان کے مطابق برآمدات میں اضافے کا فائدہ کاشتکاروں کو نہیں پہنچا، کمپنیوں نے مقامی خرید کم رکھ کر اور سستا اضافی تمباکو خرید کر زیادہ منافع کمایا، جب کہ کاشتکاروں اور حکومت کو نقصان برداشت کرنا پڑا۔

کمپنیوں کی جانب سے مسلسل طلب میں کمی سے کاشتکاروں کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے، کم قیمتیں اور ذخیرہ نہ ہونے کی مجبوری انہیں مالی طور پر شدید متاثر کررہی ہے، جب کہ کمپنیاں قیمتوں کے فرق اور برآمدات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ خسارے میں کاشتکار ہی ہیں۔