پاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت دائر اپیلوں پر وفاقی آئینی عدالت کی سماعت پر اعتراض

اگر ایف سی سی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنے گی تو یوں محسوس ہوگا کہ یہ عدالت، سپریم کورٹ سے بھی اوپر بیٹھ کر اس کے فیصلوں کا جائزہ لے رہی ہے، سینئر وکیل

وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کی سپریم کورٹ ایکٹ کے تحت دائر اپیلوں کی سماعت پر اعتراض اٹھ گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایف سی سی کے اختیار پر اس وقت سوال اٹھا جب ایک سینئر وکیل نے اعتراض کیا کہ عدالت وہ اپیلیں کیوں سن رہی ہے جو پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت دائر کی گئی تھیں۔

سینئر وکیل عبادالرحمٰن لودھی کا کہنا تھا کہ اگر ایف سی سی، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنے گی تو یوں محسوس ہوگا کہ یہ عدالت سپریم کورٹ سے بھی اوپر بیٹھ کر اس کے فیصلوں کا جائزہ لے رہی ہے، جب کہ 27ویں آئینی ترمیم میں اس کی کوئی اجازت موجود نہیں۔

نتیجتاً چھ ججوں پر مشتمل ایف سی سی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس امین الدین خان نے سماعت اس لیے مؤخر کر دی کہ وکیل اس معاملے پر باقاعدہ درخواست دائر کرسکیں۔ بعد میں وکیل نے ڈان کو بتایا کہ وہ نیا کیس دائر کرنے کے بجائے اسی موجودہ اپیل میں ایک اضافی درخواست جمع کروائیں گے۔

یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس سید حسن اظہر رضوی، علی باقر نجفی، محمد کریم خان آغا، روزی خان بڑیچ اور ارشد حسین شاہ پر مشتمل ایف سی سی بینچ نے سرکاری یونیورسٹیوں کے بی پی ایس اساتذہ کی ایسوسی ایشن (اے پی یو بی ٹی اے) سے متعلق کئی اپیلوں کی سماعت شروع کی۔

یہ تنظیم سرکاری جامعات میں اہم عہدوں جیسے وائس چانسلر، صدر، نائب صدر، رجسٹرار، فیکلٹی ہیڈز، ڈپارٹمنٹ ہیڈز، کنٹرولرز آف ایگزامینیشن اور ڈائریکٹرز آف فنانس کی خالی پوسٹوں کا مسئلہ پہلے بھی اٹھا چکی تھی۔

جب سماعت شروع ہوئی تو سینئر وکیل عبادالرحمٰن لودھی، جو ملتان کے این ایف سی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر علی کلہوڑو کی نمائندگی کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ایف سی سی اس کیس کو نہیں سن سکتی کیونکہ یہ اپیل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سیکشن 5 کے تحت دائر کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ معاملہ واپس سپریم کورٹ کو بھیجا جانا چاہیے، کیونکہ درخواست گزار کے خلاف ریمارکس بھی وہیں دیے گئے تھے، تاہم چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ اب آرٹیکل 184(3) کے تحت کوئی درخواست نہیں سن سکتی کیونکہ بنیادی حقوق سے متعلق یہ آرٹیکل 27ویں آئینی ترمیم کے بعد ختم کر دیا گیا ہے، جسٹس کے کے آغا نے سوال کیا کہ آج کے آئین میں آرٹیکل 184(3) موجود ہی کہاں ہے؟

وکیل نے جواب دیا کہ جب اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی، اُس وقت آرٹیکل 184(3) نافذ تھا، اگرچہ آرٹیکل 175(ای) اب ایف سی سی کو ایسے معاملات سننے کا اصل دائرہ اختیار فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 175(ای) کے تحت کوئی اپیل یا درخواست زیرِ التوا نہیں تھی جسے ایف سی سی کو منتقل کیا جاتا بلکہ اپیلیں آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت دائر کی گئی تھیں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے مشاہدہ کیا کہ ترمیم نے آرٹیکل کی حدود اور تصور کو وسیع کر دیا ہے اور ایسے معاملات کو ایف سی سی کے دائرے میں شامل کر دیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ کنفیوژن تب پیدا ہوتی ہے جب معاملات کو اندازوں پر چھوڑ دیا جائے اور قانون سازوں نے اس ابہام کو دور نہیں کیا۔

انہوں نے یہ مؤقف دہرایا کہ سپریم کورٹ کے پاس کوئی ایسا مقدمہ زیرِ التوا نہیں تھا جسے ایف سی سی کی تشکیل کے بعد وہاں منتقل کرنا ضروری ہوتا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے مشورہ دیا کہ آپ اس نقطے پر ایک الگ درخواست کیوں نہیں دائر کرتے؟

وکیل نے کہا کہ اگر ایف سی سی اس اپیل کی سماعت جاری رکھتی ہے تو ایسا تاثر جائے گا کہ یہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرِثانی کر رہی ہے، یعنی سپریم کورٹ سے اوپر کی پوزیشن اختیار کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 175(ایف) میں واضح طور پر درج ہے کہ ایف سی سی صرف ہائی کورٹ کے آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سن سکتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نہیں۔

سماعت کے دوران ایف سی سی کو ایک اور مشکل کا سامنا رہا کہ پی ایل ڈی (پاکستان لیگل ڈیسیژنز) یا سپریم کورٹ منتھلی ریویو کی کاپیاں فوری طور پر دستیاب نہیں تھیں، جس کے باعث بینچ کو وکیل کی فراہم کردہ کتابوں پر انحصار کرنا پڑا اور بعض مواقع پر دو جج ایک ہی کتاب کو باری باری دیکھتے رہے۔