دفتر سے باہر پیش آنے والی ہراسانی بھی ’ورک پلیس‘ کا حصہ قرار
لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کے ایکٹ 2010 کے تحت کام کی جگہ کی قانونی تعریف وسیع ہے اور اس میں وہ تمام حالات شامل ہوتے ہیں جو سرکاری یا دفتری سرگرمی سے جڑے ہوں، خواہ ہراسانی دفتر کی حدود سے باہر ہی کیوں نہ پیش آئے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق یہ فیصلہ جسٹس راحیل کامران نے ایک سرکاری افسر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے دیا، جس میں انہوں نے کام کی جگہ پر ہراسانی کے الزام پر ملازمت سے برطرفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ مذکورہ سزا پنجاب کی محتسبِ اعلیٰ نے دی تھی، جسے بعد ازاں گورنر نے بھی برقرار رکھا تھا۔
درخواست گزار عمر شہزاد، جو ڈسٹرکٹ منیجر کے عہدے پر فائز تھے، پر اس کی ماتحت خاتون ملازم، جو ایڈہاک ٹیچر تھیں، نے مسلسل ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔
شکایت کے مطابق عمر شہزاد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نازیبا نظروں، نامناسب واٹس ایپ پیغامات اور پیشہ ورانہ سہولیات کے بدلے ناجائز تعلقات کا مطالبہ کیا۔
شکایت میں یہ بھی کہا گیا کہ عمر شہزاد زبردستی خاتون کے گھر میں داخل ہوا، زیادتی کی کوشش کی او اس وقت فرار ہوا جب خاتون نے ریسکیو 15 کو کال کی۔
انکوائری کے بعد پنجاب کی محتسبِ اعلیٰ نے عمر شہزاد کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور ہراسانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرنے کی بڑی سزا سنائی، جسے گورنر نے بھی برقرار رکھا۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ واقعہ نجی رہائش گاہ پر پیش آیا، اس لیے اسے کام کی جگہ کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔
تاہم جسٹس راحیل کامران نے اس محدود تشریح کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کی دفعہ 2(ن) کے تحت کام کی جگہ میں وہ تمام حالات شامل ہیں جو دفتری کام یا سرگرمی سے جڑے ہوں، چاہے وہ دفتر سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت پر ملازمت کے دباؤ، مثلاً تقرری ختم کرنے کی دھمکی، کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو مقام سے قطع نظر دفتری تعلق واضح طور پر قائم ہو جاتا ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے واٹس ایپ پیغامات سے متعلق درخواست گزار کے اعتراض کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی جواب میں اس نے بالواسطہ طور پر ان پیغامات کا اعتراف کیا تھا اور ان کی فرانزک جانچ کو بھی چیلنج نہیں کیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ محتسب کے سامنے کارروائی فوجداری نہیں بلکہ انتظامی اور تادیبی نوعیت کی ہوتی ہے، اس لیے وہ ضابطہ دیوانی یا قانونِ شہادت کی سخت تکنیکی پابندیوں کی پابند نہیں۔
جج نے یہ دلیل بھی مسترد کر دی کہ اسی معاملے پر فوجداری مقدمہ زیرِ سماعت ہونے کی وجہ سے محتسب کو اختیار حاصل نہیں۔ عدالت کے مطابق ڈبل جیوپرڈی کا اصول یہاں لاگو نہیں ہوتا کیونکہ فوجداری مقدمہ اور محکمانہ کارروائی دو الگ قانونی دائرے ہیں، ایک کا تعلق جرم سے ہے اور دوسرے کا کام کی جگہ پر وقار کے تحفظ سے۔
عدالت نے قرار دیا کہ محتسب اور گورنر کی جانب سے درخواست گزار کو قصوروار ٹھہرانا قانون کے مطابق معقول اور دستیاب شواہد سے اخذ کردہ منطقی نتیجہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ دونوں فورمز کے نتائج نہ تو ریکارڈ کے خلاف ہیں اور نہ ہی کسی قانونی سقم یا اختیاری خامی کا شکار ہیں، اس لیے عدالت کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔