پاکستان

لاہور ہائیکورٹ: پنجاب میں جائیدادوں کے قبضے سے متعلق ڈپٹی کمشنرز کے فیصلے کالعدم

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ازخود جائیدادوں کا قبضہ چھیننے یا بحال کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور سوال اٹھایا کہ حکومت کتنے قوانین کو نظرانداز کرے گی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب کے 10 اضلاع میں جائیدادوں کا قبضہ دینے سے متعلق ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں قائم کمیٹیوں کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔

چیف جسٹس نے یہ فیصلے جمعہ کو پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد واپس لیے، جس کے تحت ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں قائم کمیٹیوں کو جائیداد تنازعات کے فیصلے کا اختیار دیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پٹواری بروقت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے تو ایسے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔

طویل عرصے تک دیوانی مقدمات کے زیر التوا رہنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ عدالتوں میں کتنے پرانے مقدمات زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ازخود جائیدادوں کا قبضہ چھیننے یا بحال کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور سوال اٹھایا کہ حکومت کتنے قوانین کو نظرانداز کرے گی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ڈپٹی کمشنرز نے اس کے باوجود قبضہ ختم کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ معاملات دیوانی عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔

دیپال پور کے ایک شہری جنہیں نئے قانون کے تحت قبضہ ملا تھا، بھی عدالت میں پیش ہوئے تاہم چیف جسٹس نے انہیں قبضہ چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

شہری کے وکیل نے عدالت میں تسلیم کیا کہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب وکیل خود یہ تسلیم کر رہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے اختیار سے تجاوز کیا تو کمیٹی کے ارکان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عدالتی نظام سے انصاف نہ ملے تو لوگ کہاں جائیں اور بتایا کہ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی نے 27 دن میں جائیداد کا قبضہ دے دیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے وکیل کو سرخیوں کے لیے سنسنی خیز بیانات دینے سے منع کرتے ہوئے سخت ریمارکس دیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار نئے قانون کے تحت قائم ٹربیونلز کو حاصل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالت کے سامنے اصل سوال یہ نہیں کہ درخواست گزار جائیداد کے مالک ہیں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آیا ڈپٹی کمشنرز کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار تھا یا نہیں۔

چیف جسٹس نے قبضے سے متعلق ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹیوں کے احکامات پر عمل درآمد معطل کرتے ہوئے درخواستیں مزید سماعت کے لیے ایک فل بینچ کو بھیج دیں، جو ابھی تشکیل دیا جانا ہے۔

رانا سلیم لطیف، محمد علی اور دیگر افراد نے 10 اضلاع میں قائم ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹیوں کے فیصلوں کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 22 دسمبر کو چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 کے نفاذ کو بھی معطل کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ معاملے کی سماعت اور فیصلے کے لیے فل بینچ تشکیل دیا جائے گا۔