کراچی میں دہشتگردی کی بڑی کارروائی ناکام، کم عمر بلوچ طالبہ کو خود کش بمبار بننے سے بچالیا گیا
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک کم عمر بلوچ بچی کو خودکش حملے کے منصوبے سے بچا لیا، بچی کودہشت گرد تنظیمیں خودکش حملہ آور بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ضیا الحسن لنجار نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی محمد آزاد خان اور ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کے ساتھ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے پیچھے جو بچی دیکھ رہے ہیں یہ بلوچستان سے ہیں، ان کی مختلف لوگوں نے ذہن سازی کی اور ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا، بچی ایک عام سے اسکول میں زیر تعلیم ہے، بچی کے والد کا انتقال ہوچکا ہے، آج بھی پوری فیملی حکومت پاکستان سے پینشن لے رہی ہے، بچی کا ایک بھائی پولیس اور ایک سول ادارے میں ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران مستقبل میں خودکش حملے کے لیے استعمال کی جانے والی بلوچ بچی اور والدہ کی گفتگو بھی شناخت مخفی رکھ کر میڈیا کو دکھائی گئی۔
وزیر داخلہ سندھ نے پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے کراچی ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا، دہشت گردوں کا نیا نشانہ ہمارے بچے ہیں اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فتنۃ الہندوستان کے دہشت گرد عناصر بچوں کو اپنا نیا ہدف بنا رہے ہیں اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے معصوم ذہنوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔
وزیر داخلہ سندھ کے مطابق اس واقعے میں کالعدم تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف سے منسلک نیٹ ورک نے ایک کم عمر بلوچ بچی کو ورغلا کر خودکش حملے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے نہ صرف بچی کی جان بچائی گئی بلکہ کراچی ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ محمد آزاد خان نے پریس کانفرنس کے دوران تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کالعدم دہشت گرد نیٹ ورک کی سنگین سازش ناکام بنا دی گئی، 25 دسمبر کی شب ایک انتہائی حساس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران کم عمر بچی کو بحفاظت تحویل میں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور انتہا پسند مواد کے ذریعے معصوم ذہن کو بتدریج زہر آلود کیا گیا، بچی والدہ سے چھپ کر موبائل استعمال کرتی رہی، دہشت گردوں نے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پاکستان مخالف اور غیر ملکی پشت پناہی یافتہ مواد کے ذریعے ذہن سازی کی گئی، ایک ہینڈلر نے ہمدردی اور مدد کے بہانے رابطہ کیا اور بعد ازاں خودکش حملے پر اکسانا شروع کیا، بچی کو کراچی بھیجا گیا، پولیس ناکوں پر چیکنگ کے باعث ہینڈلر مطلوبہ مقام تک نہ پہنچ سکا اور سازش بے نقاب ہو گئی۔
آزاد خان نے بتایا کہ ڈی بریفنگ کے دوران بچی نے نیٹ ورک اور طریقہ واردات کی مکمل تفصیلات فراہم کیں، کم عمری کے باعث خاندان کو فوری طور پر طلب کیا گیا، والدہ اور بہن بھائی کراچی پہنچے، بچی کو مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کیا گیا۔
پریس کانفرنس کے دوران متاثرہ بچی کی شناخت چھپا کر بیان چلایا گیا، جس میں بچی نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سامنے آیا، پھر وہی مواد بار بار دکھایا جانے لگا، رابطہ بڑھا، لنکس اور تقاریر بھیجی گئیں اور آہستہ آہستہ وہی سب کچھ سچ لگنے لگا، جب رابطہ کار کو معلوم ہوا کہ میرے والد نہیں ہیں تو اس نے ہمدردی کے نام پر مجھے مزید پھنسایا، واٹس ایپ گروپس میں بی ایل اے کی کارروائیوں کو بہادری بنا کر پیش کیا گیا، جو سراسر دھوکا تھا۔
متاثرہ بچی نے کہا کہ میری پڑھائی متاثر ہونے لگی اور ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ جان دینا ہی سب سے بڑا مقصد ہے، میں نے گھر سے نکلنے کے لیے بہانہ بنایا، آج سمجھ آیا کہ میں کس تباہی کی طرف جا رہی تھی، ناکے پر پوچھ گچھ ہوئی تو میں شدید گھبرا گئی، میں بلوچ ہوں، ہماری روایات عورت کی عزت سکھاتی ہیں۔
بچی کی والدہ نے اپنے بیان میں بتایا کہا کہ عوامی مفاد میں ہم نے بیان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے، ریاست نے ماں کی طرح میری بچی کی جان بھی بچائی اور اس کی عزت بھی مکمل طور پر محفوظ رکھی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کے مطابق سی ٹی آپریشنز بلا تعطل جاری رہیں گے، دہشت گردی کے خلاف ریاستی عزم غیر متزلزل ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زور دیا کہ وہ نفرت انگیز اور دہشت گرد مواد کے خلاف سخت اقدامات کریں، اکاؤنٹس بند کریں اور الگورتھمز کو بہتر بنائیں۔