دنیا

بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں

طویل بیماری اور قید کے باوجود خالدہ ضیا نے نومبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ فروری 2026 میں ہونے والے عام انتخابات کی مہم میں حصہ لیں گی۔

بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم اور اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد منگل کے روز انتقال کر گئیں۔ بی این پی کے مطابق وہ 80 برس کی تھیں اور جگر کے شدید عارضے، ذیابیطس، گٹھیا، سینے اور دل کے مسائل میں مبتلا تھیں۔

پارٹی کے بیان میں کہا گیا کہ خالدہ ضیا کا انتقال صبح چھ بجے فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوا۔ بیان میں ان کی مغفرت کے لیے دعا اور عوام سے بھی دعا کی اپیل کی گئی۔

عبوری رہنما محمد یونس نے کہا کہ بنگلہ دیش ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق خالدہ ضیا کی غیر سمجھوتہ قیادت نے ملک کو بارہا غیر جمہوری حالات سے نجات دلائی اور آزادی کی جدوجہد کو تقویت دی۔

معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے بھی سوشل میڈیا پر جاری بیان میں خالدہ ضیا کے انتقال پر اظہارِ افسوس کیا۔

طویل بیماری اور قید کے باوجود خالدہ ضیا نے نومبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ فروری 2026 میں ہونے والے عام انتخابات کی مہم میں حصہ لیں گی، جو گزشتہ برس شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والا پہلا انتخاب تھا۔ تاہم نومبر کے آخر میں ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔

خالدہ ضیا کو 2018 میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انہیں بیرونِ ملک علاج کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ بعد ازاں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

ان کے صاحبزادے اور بی این پی کے اہم رہنما طارق رحمٰن 17 برس بعد وطن واپس آئے اور اب وہ پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے 12 فروری کے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ پارٹی کی کامیابی کی صورت میں انہیں وزیرِ اعظم نامزد کیے جانے کا امکان ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خالدہ ضیا کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کی مخلص دوست تھیں اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

صدر آصف علی زرداری اور نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے بھی تعزیتی پیغامات جاری کیے۔

خالدہ ضیا نے 1991 میں بنگلہ دیش کے پہلے آزادانہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی نظام نافذ کیا، غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیاں ختم کیں اور ابتدائی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا۔

شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی طویل سیاسی رقابت نے دہائیوں تک بنگلہ دیش کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اگرچہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں، مگر وہ ملک کی سیاست میں ایک مرکزی اور بااثر کردار کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔