شہزادی گیلانی کی تربیت کے اخراجات تقریباً سوا دو لاکھ پاکستانی روپے کے لگ بھگ تھے، یہ رقم آٹھ سالوں کے بعد واپس ملنی تھی۔
ہر ایک کے والد کی مالی استطاعت مضبوط نہیں ہوتی، روزیہ الطاف نے سولہ سال پہلے پولیس کا محکمہ جوائن کیا تھا۔ انہوں نے اپنی بنیادی تربیت کے لیے پچاس سے زیادہ درخواستیں دی تھیں، اور چھ سال تک انتظار کیا تھا۔
اس وقت وہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں خواتین پولیس اسٹیشن کی سربراہ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ معمولی ہی سہی لیکن چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔
انہوں نے انکاریہ انداز میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں نظرانداز کردیا گیا تھا، لیکن اب میں اس بات کو یقینی بنارہی ہوں کہ میری جونیئر آفیسرز وقت پر تربیت اور ترقی حاصل کرسکیں۔
پشاور کے خواتین پولیس اسٹیشن پر ایک سال میں تقریباً پچاس شکایتیں درج کرائی جاتی ہیں، جو مردوں کے پولیس اسٹیشن کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
ایبٹ آباد کے خواتین پولیس اسٹیشن پر 2005ء میں آخری رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ اس اسٹیشن کی سربراہ ثمینہ ظفر جس میز کے ساتھ بیٹھی تھیں، وہ بالکل خالی تھی اور ان کے کمرے میں ایک واحد بلب روشن تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بہتر سہولیات نہیں دی جاتی ہیں۔ میں اس جگہ کو مردوں کے پولیس اسٹیشن کی طرح دیکھنا چاہتی ہیں۔
حملہ آوروں پر شاذونادر ہی مقدمہ چلایا جاتا ہے:
پروفیسر منگائے نٹاراجن جو خواتین کے پولیس اسٹیشنوں پر ریسرچ کررہی ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین، خواتین افسروں پر ہی بھروسہ کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تامل ناڈو ریاست کے خواتین پولیس اسٹیشنوں میں گھریلو تشدد کے دو تہائی کیس ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ پولیس کی ثالثی سے نصف شکایتیں کم ہوجاتی ہیں، لیکن پاکستان میں ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں ۔
خیبر پختونخوا میں خواتین ڈیسک کو چند دنوں میں ایک شکایت موصول ہوتی ہے، ان میں سے زیادہ تر گھریلو تشدد سے متعلق ہوتی ہیں۔
عام طور پر خواتین پر تشدد کرنے والے فرد کے ساتھ محض ڈانٹ ڈپٹ ہی کی جاتی ہے۔ یوں متاثرہ خواتین کے لیے تشدد کے مزید خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سے مرد پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پولیس کے محکمے میں شامل ہونے کے لیے تیار کوئی بھی خاتون اس کی اہلیت نہیں رکھتی۔
ایک سینیئر آفیسر نے کہا کہ پولیس فورس میں شامل ہونے والی خواتین اپنی عزت کا خیال نہیں رکھتیں، یا پھر وہ ہر جگہ نہیں جاسکتی ہیں۔
شہزادی گیلانی اور رضوانہ ظفر اس طرح کی باتوں سے سخت ناراض ہوتی ہیں۔
شہزادی گیلانی نے کہا کہ اگر لوگ خواتین پولیس اہلکاروں کو اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح ادا کرتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ذہن تبدیل ہوجائیں گے۔
جب انہوں نے اپنے گھر کے سربراہ کےاس حکم پر برقعہ پہننے سے انکار کیا تو وہ آج پولیس اسٹیشن میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ہم ایک مرد کی طرح اپنا کام کررہے ہیں تو ہم اپنا چہرہ کیوں نہ دکھائیں۔ تبدیلی معاشرے کے ہر فرد کے لیےایک چیلنج ہوتی ہے، صرف پولیس کے لیے نہیں۔