پاکستان

سیاہ بھوت یا زہریلی گیس۔ خواتین بے ہوش

لانڈھی کی ایک فیکٹری میں خواتین ورکروں کی اچانک بے ہوشی کا سبب لوگوں کے خیال میں بھوت، جبکہ ڈاکٹرز ماس ہسٹیریا قرار دے رہے ہیں۔

کراچی: کل پیر کی صبح جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ میں خوف، ہلچل اور مکمل افراتفری کا مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا، جب یکے بعد دیگرے لانڈھی کی ایک گارمنٹ فیکٹری کی کارکن خواتین کو بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کی حالت میں ایمبولنس کے ذریعے یہاں لایا گیا۔

نیم بے ہوشی کی حالت میں یہ خواتین چیخیں مار رہی تھیں اور بلند آواز سے رورہی تھیں، بعض کچھ دیر کے لیے ہوش میں آتیں اور ہسٹیریائی انداز میں چیخ مار کر دوبارہ بے ہوش ہوجاتیں۔ جو مسلسل چیخ رہی تھیں، انہیں ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد انجکشن لگایا، جس کے بعد ان کی  کیفیت آہستہ آہستہ  پرسکون ہوتی گئی اور وہ خاموش ہوگئیں۔

فیکٹری کے چیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں ہیلپر کا کام کرنے والی ایک نوجوان لڑکی شگفتہ نازنے بتایا کہ ”میں نے واش روم میں ایک بہت بڑا سیاہ بھوت دیکھا۔ وہ ایک سائے کی طرح تھا، لیکن میں نے اب تک جتنے بھی سائے دیکھے ہیں، وہ ان سب سے کہیں بڑا تھا۔“

شگفتہ ناز اس وقت اسٹریچر پر لیٹی ہوئی تھیں، ان کے سامنے اسٹریچر پر لیٹی خاتون ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھیں۔ شگفتہ نے اپنی سسکیوں کو روکتے ہوئے کہا کہ ”کئی دنوں سے ہم واش روم میں مردانہ سسکیوں کی خوفناک آوازیں سن رہے تھے۔ ہم اس کی صحیح طرح وضاحت نہیں کرسکتے۔ لیکن آج ہم نے اسے دیکھ بھی لیا اور وہ کسی بھی طرح زمینی مخلوق کا وجود نہیں تھا۔“

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ کی ہیڈ نرس ڈیزی نسرین کا کہنا تھا کہ ان تمام خواتین کو خاموش کرانا بہت مشکل کام تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک چیختی تو دوسری اس کو دیکھ کر چیخنا شروع ہوجاتی۔“

ایک اور لڑکی جسے اس وقت اپنا نام بھی یاد نہیں تھا، اس نے کہا ”میں سوہی ہوں۔“ بعد میں اس کی والدہ نے اس کو یاد دلایا کہ اس کا نام شاہینہ ہے۔ پھر اس نے چونکتے ہوئے کہا کہ ”اوہ، جی میں شاہینہ ہوں۔“

جب شاہینہ سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا، تو انہوں نے بتایا ”میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا، لیکن ایک یا دو لڑکیاں جو واش روم گئی تھیں، مدد کے لیے اندر سے چیخنے لگیں۔ پھر ان میں سے ایک دوڑتی ہوئی باہر آئی اور اس نے اپنی ہی چادر سے اپنا گلا گھونٹنا شروع کردیا۔ اسی لمحے اچانک مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی میرا بھی گلا گھونٹ رہا ہے۔  پھر تو اس منزل پر موجود تمام ہی لڑکیوں کو ایسا لگا کہ انہیں سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔ سب نے ہی دم گھٹنے کے احساس کی شکایت کی۔“

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ”میری ساتھیوں میں سے ایک اور بھی واش روم میں کوئی سایہ دیکھ چکی تھیں، جسے دیکھنے کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی تھیں، اور پھر انہیں گھر بھیج دیا گیا تھا۔ وہ کافی دن تک کام پر واپس نہیں آئیں، لیکن جب وہ واپس آئیں تو انہوں نے دوبارہ  ایسا ہی کچھ دیکھا اور پھر اس کے بعد وہ کام پر نہیں آئیں۔ بعد میں  ہم نے سنا کہ عید سے ایک دن پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ ایک اور لڑکی جنہوں نے اسی وقت واش روم میں اس بھوت کو دیکھا تھا، ان کو  بھی یہی شکایت ہوئی تھی۔ وہ بھی دوبارہ واپس نہیں آئیں۔ اب ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی شدید بیمار ہیں۔“

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فیکٹری بلڈنگ میں صرف واش روم میں ہی وہ سایہ دیکھا گیا، اور کیا صرف لڑکیوں نے ہی اسے دیکھا تھا، تو شاہینہ نے کہا ”نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سائے کو نیچے جانے والی ایک سیڑھی پر  بھی دیکھا گیا تھا۔ فیکٹری کے مالک نے بھی یہ محسوس کرنے کے بعد کہ یہاں کچھ گڑبڑ ہے، ایک مولوی کو بلوایا، لیکن مولوی نے فیکٹری میں  آنے کے بعد جب چند آیتوں کی تلاوت کی تو وہ بھی اچانک چیخنے لگے اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تیزی سے بھاگ گئے۔ لہٰذا اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ  یہ جگہ آسیب زدہ ہے۔“

اس سے پہلے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسئلے کا سبب کسی زہریلی گیس کا اخراج ہوسکتا ہے۔ فیکٹری کے ایک ورکر محمد یاسین نے کہا کہ ”اگر یہ سچ ہے تو پھر  اس گیس نے ہم مردوں کو کیوں متاثر نہیں کیا ۔“

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی سربراہ سیمیں جمالی نے بتایا ”سات خواتین ہمارے پاس گیارہ بجکر پچیس منٹ پر لائی گئیں اور پھر اس کے بعد بارہ بجکر پانچ منٹ سے لے کر بارہ پچاس تک بہت سی خواتین لائی جاتی رہیں۔ ایمبولنس میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو خواتین کو لایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں آنے والی ایمبولنس میں زیادہ تر کے اندر خواتین بھیڑ بکریوں کی مانند بھری ہوئی تھیں، اور اس طرح کی ہنگامی صورتحال میں ہم بھی اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے تھے کہ انہیں اسٹریچر پر ڈال کر وارڈ میں لایا جاتا۔ ان سب کو ریسکیو ورکرز کی مدد سے جلدی جلدی اندر پہنچایا گیا۔ ہم نے فوری طور پر ہسپتال میں ہنگامی حالت کا اعلان کردیا۔“

انہوں نے بتایا کہ ”جب ہمارے ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ ان خواتین کے ہاتھ مسلسل حرکت کررہے تھے، اور ان  پلکیں تیزی سے جھپک رہی تھیں۔ ان کے اندرونی اعضاء مستقل کام کررہے تھے۔ ان کا آکسیجن سیچوریشن ٹیسٹ بھی نارمل آیا تھا۔ کیا یہ واقعی کاربن مونو آکسائیڈکے زہریلے اثرات تھے،  اس صورت میں یہ سب کی سب فوری طور پر ہلاک ہوسکتی تھیں۔ یقیناً ایسا ہی ہوا تھا، ریسکیو کرنے والے کارکن بھی مریضوں سے زیادہ خود خوفزدہ تھے، ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ ان خواتین کی سانس کے ساتھ کوئی زہریلی گیس ان کے جسم میں داخل ہوگئی ہے۔ہم نے سائیکاٹری اور نیوروولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال فریدی کو بلایا ہے، تاکہ اس معاملے کی حقیقت سامنے آسکے۔“

متاثرہ مریض خواتین کا معائنہ کرنے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر اقبال فریدی نے اس معاملے کو ماس ہسٹیریا قرار دیا۔ ”جن، بھوت، چڑیل کے تذکرے ہماے جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں عام ہیں۔ یہ خواتین بہت بُری طرح ڈر گئی تھیں، اس لیے یہ کسی عقلی دلیل کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوں گی، نہ ہی وہ یہ مشورہ سننا چاہیں گی کہ وہ چاروں قل اور آیت الکرسی کی تلاوت کرلیں، اس لیے کہ ان کا اس بات پر بھرپور یقین ہے کہ وہاں بھوت ہی تھا۔“

انہوں نے کہا کہ ”پانچ سے  چھ عیادت کرنے والے یا خاندان کے افراد جو ان خواتین کے ارد گرد جمع ہیں، بجائے ان کی کیفیت کو معمول پر لانے میں مدد دینے کے، انہیں اپنی باتوں سے مزید خوفزدہ کر رہے ہیں۔ ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ مریض کو آرام کرنے دیں، چنانچہ ہمیں بعض مریضوں کو سکون آور انجکشن دینا پڑا۔“

اس سے پہلے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر چند گھرانوں کے افراد نے کہا کہ انہیں ڈاکٹروں کے کہنے پر ذرا بھی یقین نہیں ہے۔ عبدالقدوس جن کی چھوٹی بہن کو اس سے پہلے ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا، نے کہا کہ ”یہ ڈاکٹرز ہمارے لیے زیادہ مددگار نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی پہنچے ہوئے سے رجوع کرنا چاہئیے۔ کسی مذہبی شخصیت یا کوئی جھاڑ پھونک کرنے والے کے پاس انہیں لے جائیں گے۔“

ان کے ایک اور رشتہ دار نے کہا کہ ”سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہوا، عبداللہ شاہ غازی کے عرس کے وقت ہوا۔ ہمیں لازماً ان غریب عورتوں کو وہاں لے جانا چاہئیے۔“