پاکستان

شادی کرنے پر لڑکی سکول سے بے دخل

ایک شادی شدہ طالب علم ساتھ طالبات کے ساتھ اپنے ازدواجی معاملات شیئر کر سکتی ہے، جس سے سکول کا ماحول متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، ہیڈ مسٹرس۔

چکوال: چکوال کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی ہیڈ مسٹریس نے ایک لڑکی کو شادی کرنے پر سکول سے نکال دیا۔

ہیڈ مسٹریس کا کہنا ہے کہ کلاس دہم کی مدیحہ فاطمہ جن کی شادی ہوگئی ہے، اپنی ساتھی طالبات پر بُرے اثرات ڈال سکتی ہے۔

پچھلے مہینے اپنے خاندان میں شادی کرنے والی مدیحہ نے ڈان کو بتایا کہ جب انہوں نے شادی کے لیے چھٹیوں کی درخواست دی تو ان کی کلاس ٹیچر نے اسے قبول نہیں کیا۔

مدیحہ کے مطابق، اس انکار کی وجہ سے انہیں مجبوراً کچھ عرصہ سکول سے غیر حاضر ہونا پڑا۔

'شادی کے کچھ دنوں بعد جب میں واپس سکول آئی تو مجھے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیا گیا'۔

بعد میں مدیحہ اپنی والدہ کے ساتھ ہیڈ مسٹریس سے ملیں اور انہیں اپنے فیصلے پر غور کرنے کی درخواست کی، تاہم ہیڈ مسٹریس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

مدیحہ کے مطابق، انہوں نے ہیڈ مسٹریس سے درخواست کی کہ وہ انہیں تحریری طور پر اپنے فیصلے سے آگاہ کریں، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے بھی انکار کیا۔

مدیحہ کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، لیکن ان کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔

مدیحہ کے شوہر ناطق جعفری نے کہا ' کیا شادی کرنا جرم ہے؟ میں اپنی بیوی کو پڑھانا چاہتا ہوں لیکن سکول انتظامیہ ان کو بنیادی حق سے محروم کر رہی ہے'۔

سکول کی ہیڈ مسٹرس شہناز بیگم نے رابطہ کرنے پر موقف اختیار کیا کہ 'ایک شادی شدہ طالب علم ساتھی طالبات سے اپنے نجی اور ازدواجی معاملات پر کھل کر بات چیت کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے سکول کا ماحول شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے'۔

جب شہناز سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کس قانون کے تحت یہ قدم اٹھایا تو ان کا کہنا تھا' یہاں قانون نہیں بلکہ طرز عمل اہمیت رکھتا ہے'۔

توجہ دلانے پر ایگزیکٹیو افسر ایجوکیشن غلام مرتضٰی نے کہا کہ وہ معاملے کی چھان بین کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ شادی کرنے پر کسی طالب علم کو سکول سے نہیں نکالا جا سکتا۔