موٹر سائیکل اور اسکے سوار
موٹرسائیکل سوار جو آپ کے دائیں بائیں، اوپر نیچے کہیں سے بھی نکل سکتے ہیں، آپ یا تو دیکھتے رہ جائینگے یا پھر تھوڑی دیر کے لئے سٹپٹا جائینگے۔ اور اگر اس نے آپ کی گاڑی یا جسم کے کسی حصے کو چھوا ہو یا نا چھوا ہو تو یہ آپکی قسمت ہے ۔ البتہ وہ چھلاوے کی طرح نکل چکا ہوتا ہے۔ ہم جو صبح شام ٹریفک کو کوستے رہتے ہیں، اس پراگر غور کریں تو موٹرسائیکل سوار ہی سرفہرست ہوگا۔
منی بس رکشہ، ٹرک ہو یا کار سب کے چلانے والے موٹر سائیکل سوار کے دیکھا دیکھی وہی مزاج اپنا لیتے ہیں اور اپنی گاڑیوں کو موٹر سائیکل سوار کی طرح چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
رکشہ والے کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں سے بھی نکال لے اور وہ یہ ہمیشہ بھول جاتا ہے کہ رکشہ چلا رہا ہے نا کہ موٹر سائیکل۔ پہلےتو اسکوٹر اور ویسپا بھی ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ ‘میں تے ہونڈا ہی لیساں’ کا زمانہ ہے۔ اس طرح کی کوئی سواری مشکل سےہی دکھائی دیتی ہے۔
موٹر سائیکل کے اشتہار میں جیسےمرد کو فخر کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر اور عورت کو پیچھے بیٹھا دکھایا جاتا ہے اسی طرح کا مزاج ہمارے مردوں میں بھی پنپتا ہے اور شہر کیا گاؤں کے مرد کے لئے بھی ایسا ہی اشتہار دکھایا جاتا ہے عورت کھانا لارہی ہے اور صاحب مونچھوں کو تاؤ دیے خاتون کو پیچھے بٹھاکر موٹرسائیکل اڑائے جا رہے ہیں۔
یہی مزاج ہم اپنی سڑکوں پر بھی دیکھتے ہیں، ہر کوئی اپنی مردانگی کا اظہار اپنی موٹرسائیکل چلا کر کر رہا ہوتا ہے، بپھرا ہوا اور اپنے سے آگےکچھ نا دیکھنے والا۔ کوئی قانون اور اصول جن کے بنانے والے خود اس کے پابند نہیں تو اس سر پھرے اور مردانگی کے چلتے پھرتے نمونے سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں۔
وہ جب دیکھتا ہے کہ سڑک پر عورت گاڑی لے کر نکلی ہے تو مردانگی اور نام نہاد غیرت اسکے ایک ایک انگ سے پھوٹنے لگتی ہے۔
بھلے پڑھا لکھا ہو یا دو جماعتیں پاس یا پھر اسکی نئی نئی داڑھی اگی ہو ۔ چاہے پہاڑوں سے اترا ہو یا پھر شہر کےپوش علاقے میں پلا بڑھا ہو، عورت کو گاڑی چلاتےدیکھ کر اسکے بھی اسکرو ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ یہ عورت بھی مجھ سے مقابلہ کرسکتی ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ اس عورت نےاپنی مستقل مزاجی، محنت اور جانفشانی سے آج اسے وہاں پہنچادیا ہے کہ وہاں تک پہنچنا اس کے بس میں بھی نہیں۔
اس لئے آج مذہب اور اقدار کو بہانہ بناکر عورت کو پھر نقاب اور چادر اوڑھا کر اسے پیچھے دھکیلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔اب تو اشتہار میں بھی نقاب پہنائے جارہے ہیں۔
یہ آجکل کےاقتصادی حالات کی مجبوری ہے کہ مرد کی غیرت نے اسے اتنی اجازت دیدی ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورت سےنوکری بھی کرواتا ہے تاکہ وہ پیسے کماکر لائے اور گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ بھی ڈالے ۔
لیکن پردے اور پابندیوں میں رہنے کی شرط پر۔کیونکہ معاشرہ بہت خراب ہے دوسری طرف بیٹے ہیں جن کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ رات رات بھر موٹر سائیکلیں دوڑائیں اور صبح آکر بستر پر گریں ۔اور وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہوتے کہ وہ توبیٹے ہیں۔
ہمارے ہاں اگر کام کرنے والی عورت جو بہت محنت کے بعد اس لائق بنتی ہے کہ اسکے پاس بھی گاڑی ہو جس میں وہ آفس بھی جاتی ہے، اپنے بچوں کو اسکول بھی چھوڑتی ہے اور گھر کےبھی کئی کام کاج نمٹاتی ہے۔لیکن وہ ہمارے غیرت مند سپوتوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔
روز جو خواتین روڈ پر گاڑی لے آتی ہیں وہ کتنی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں وہ انکو ہی معلوم ہے، چاہے شہر کے پسماندہ علاقے ہوں یا پھر نام نہاد پوش علاقے، چاہے پڑھےلکھےہوں یا ان پڑھ ، مائینڈسیٹ ایک ہی ہے بس صرف انکے رویوں میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔
ہماری ایک ماسی جو نا صرف ہمارے لیکن اور کئی گھروں میں دن رات کام کرتی تھی، اس کاشوہر ایک بلڈنگ کی رکھوالی کرتا تھا اور وہ لوگ اسی بلڈنگ کی چھت پر رہتے تھے۔
اس نے دن رات کام کر کے اتنے پیسے کمائے کہ شوہر کو موٹر سائیکل خرید کردی۔ اب پتہ چلا کہ ‘باجی وہ مجھے موٹر سائیکل پر نہیں بٹھاتا ’ہم نے شوہر سے پوچھا کہ‘ کیوں بھئی اسے موٹر سائیکل پر کیوں نہیں بٹھاتے؟
’شوہر صاحب نے فرمایا ‘جی یہ تو عورت ہے اسے میں کیسے بٹھاسکتا ہوں!’ تو یہ مزاج ہر جگہ ہے ہم صرف شہر کی باتیں کر رہے ہیں لیکن شہر سے باہر نکلیں تو لگے گا ابھی اور پیچھے چلے گئے ہیں، ہماری ہمسرجب سپر ہائی وے پر گاڑی ڈرائیو کرتی ہیں تو باقی حضرات کے رویے کے تو ہم عادی ہیں ہی لیکن ان گاڑیوں میں بیٹھی خواتین بھی مڑ مڑ کر دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
ویسے ہماری ہمسر تو گاڑی نگر پارکر تک بھی ڈرائیو کر کے لے گئی ہیں ۔ باقی سندھ میں تو لوگ مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں لیکن تھر میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ عورت ڈرائیو کر رہی ہے۔ کیونکہ وہاں کی عورت بھی سارے ہی کام کرتی ہے۔
ایک بوڑھی عورت اپنی بیٹی کو اونٹ پر بٹھائے تھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں جاتی دکھائی دے گی یا پانی کے گھڑے لئے میلوں کا سفر کرنے والی خواتین کی تصاویر تو ہم فخر سے دیکھتے بھی ہیں تو چھاپتے بھی ہیں۔
لیکن اب چلتے ہیں سرحد پار اپنے جڑواں بھائی کے ہاں کیونکہ موٹر سائیکل اور اسکوٹر وہاں بھی ہے، وہاں بھی بیٹیاں ہیں ،لیکن وہ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر نہیں اگلی سیٹ پر بیٹھتی ہیں۔