ہر خاتون جس میں اپنی جان بھی نہیں تھی آٹھ دس بچوں کی ماں تھی ۔ کیمپ میں جائیں تو خواتین بچے سنبھال رہی ہیں یا کھانے پکا رہی ہیں اور شوہرِ نامدار چارپائی پر لیٹے ہیں کہ ہمیں تو امداد ملی ہی نہیں۔
بچوں کا کیا ہے وہ تو اللہ کی دین ہے، دیے ہیں تو پالے گا بھی وہی۔ اسکول نہیں ہیں تو کیا ہوا، مدرسے تو ہیں ہی۔ پڑھائی، رہائش کھانا مفت۔
صبح شام کھانے میں ملے گا بکرے کا گوشت جو آجکل شرفا بھی کھانے کو ترستے ہیں۔
پھر والدین کا تو دوسرا جہان بھی سنور رہا ہوتا ہے۔ اب تو پیکیج آ گئے ہیں۔ ایک بیٹا دو گے تو یہ ملے گا، دو دو گےتو فوائد اس سےبھی زیادہ ہونگے، تین دیئے تو آپ کو حج بھی کروا دیں گے۔ غریب آدمی کو اور کیا چاہیے۔
ادھر اہلِ اقتدار کی بھی یہی روش ہے، اہلِ اقتدار ہم انہیں نہیں سمجھتے جو اقتدار میں ہیں، اہلِ اقتدار تو ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں چاہےانہوں نے اپوزیشن کا چوغا بھی پہنا ہو۔
کسی نا کسی طرح سے وہ بھی اقتدار کا حصہ ہی ہوتے ہیں ۔ پورے پورے خاندان، بیٹے، بیٹیاں، چچا چچی، پھوپھا پھوپھی، بھانجے بھتیجے، دور کے ہوں یا قریب کے رشتے دار، سول سروس ہو، آرمی، اخبار، ٹی وی یا اسمبلی یا اسمبلی سے باہر، دینی جماعت یا ترقی پسند پارٹی ، کوئی جماعت ہو ان کی اولاد یا رشتے دار ہر جگہ ہیں اور انکے کام کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں رکتے۔
کبھی دریا کے اس پاربیٹھے ہوتے ہیں تو کبھی دریا کی اس پار ۔ خان صاحب جو نئے انقلاب لانے کے خواب دکھا رہے ہیں ،ان کے نصیب میں بھی وہی بچے کھچے چھیچھڑے ہیں ، لیکن نعرہ پھر بھی انقلاب کا ہے۔
ادھرصحافی حضرات کو تو صرف نوٹس ہی لینے ہوتے ہیں، چھپتا تو وہی ہے جو بتایا جاتا ہے۔
آجکل ویسے بھی بیٹوں کا زمانہ ہے سب بیٹے ٹرینی ہیں، آخر ملک کی باگ ڈور انہیں ہی سنبھالنی ہے تو ہم اور آپ آج کل بیٹے بیٹیوں کی تصاویر اخبارات میں ملاحظہ کر رہے ہیں۔
چونکہ اپنی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ نوجوان اکثریت میں آگئے ہیں اور ووٹ بھی نوجوانوں نے ہی ڈالنا ہے۔ اس لیے سب اپنے اپنے نوجوانوں کو میدان میں اتارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ویسے بھی اپنے ہیرو عمران خان کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت جو سیاست سے زیادہ شوشا پسند کرتی ہے،اس کےلیے اگلے الیکشن میں جلسوں کی جگہ ہمیں کنسرٹ زیادہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تقریر کے بیچ میں میوزک کی ابتدا تو ویسے بھی ہو ہی چکی ہے۔ گاتے بجاتے ووٹ ملیں گے۔ ویسے بھی ووٹ تو فیس بک والے ہی دیں گے۔
بچارے مشرف کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ،فیس بک دیکھ کر اڑنے لگے تھے، لیکن ایک ہی جلسے نے ہوا نکال دی۔
ویسےسیاستدانوں کو چھوڑیں جج حضرات کے بیٹے بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں، دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔
کسی کی مجال ہے کہ الزام لگائے، جو دودھ کے دھلے ہیں وہ اگر راتوں رات کروڑ پتی بن گئے تو کیا ہوا، اپنی محنت سے کمایا ہے، کسی کے ہاں ڈاکہ تو نہیں ڈالا ۔ بہرحال سیاستدانوں اور ججوں کے بیچ بیٹے بیٹے کے کھیل میں آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
اس وقت ہم سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہیں اگلے بیس سالوں میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
اسکول، سڑکیں، ہسپتال، نوکریاں، بجلی، پانی، گیس ابھی بھی نا ہونے کے برابر ہیں۔ بعد میں کیا ہوگا تھوڑا اپنی تصور کی آنکھ سے بھی دیکھ کر دیکھیں۔
گولیاں اب بھی کھا رہے ہیں بعد میں شاید بموں پر گذارہ کرنا پڑے۔
تصاویر بشکریہ مصنف