Dawn News Television

شائع 10 اکتوبر 2012 05:50pm

ملالئے کے نام ایک خط

،عزیزہ ملالہ

آج ہمارے مجاہدین بھائی وزیرستان کے پہاڑوں میں فتح کا ایک اور جشن منا رہے ہیں۔ ہر طرف فائرنگ کا اتنا شور ہے کہ ایک دوسرے کی بات تک سنائی نہیں دیتی۔ اسی لیے میں نے تمہیں خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگرچہ تم فی الحال یہ خط نہیں پڑھ سکتیں اور یہ جشن اسی خوشی میں منایا جا رہا ہے تاہم میں چاہتا ہوں کہ خط صرف اس صورت میں تمہیں پڑھ کر سنایا جاےٴ اگر جاگنے کے بعد تمہارا حافظہ محفوظ ہو۔ گو اس سے بڑھ کر میرے لیے تکلیف دہ بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

آج ہمارے یہ بہادر بھائی بہت خوش ہیں کہ افغانستان میں روس کی شکست کی بعد یہ ان کی سب سے بڑی فتح ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تمھارے پڑھنے اور لکھنے سے اسلام کو ایک عظیم خطرہ لاحق ہے اور تم سیکیولر خیالات کے فروغ کے لیے کام کر رہی تھیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے سکول میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں سیکیولر کا ترجمہ ابھی تک لادینیت ہی کیا جاتا ہے یا نہیں لیکن مجھے اتفاق ہے کہ تمہارا پڑھنا اور لکھنا ہی لادینیت ہے۔

ہمارے یہ بھائی مختصر بات کرتے ہیں اور عموما ہر بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ شاہینوں کا کام ہی پلٹنا اور جھپٹنا ہے۔ گفتگو بےوقوف کی میراث ہے، مردِ مومن کی نہیں۔ اسی لیے خوشحال خان، رحمان بابا اور غنی خان کے بعد ہم نے یہ کام ترک کردیا ہے یا ان چند دیوانوں کے لیے چھوڑ دیا ہے جو کہیں دور کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہیں۔

میرے علم میں یہ بھی آیا ہے کہ تم امریکا کے لئے کام کرتی تھیں اور اوباما کو پسند کرتی تھیں۔ بیٹی اس میں قصور ہمارا بھی ہے۔ ہم تمہیں بتانا بھول گیے کہ امریکیوں سے نفرت کرنا تمہارا فرض ہے خاص طور پر اوباما سے۔

تمہیں سمجھنا چاہیے کہ بھکاری کا بھیک دینے والے سے نفرت کرنا ایک سنہری اصول ہے جس کی بنیاد پر ایک نئی اسلامی مملکت وجود میں لانے کی یہ تاریخی جدوجہد جاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس حسین خواب کی تکمیل پر تمہیں آیندہ کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

امید ہے تم اس گہری نیند سے ضرور جاگو گی اور ہمارے شاہین بھائیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک بار پھر تمہیں ملنے آئیں گے۔ ہر سچے مسلمان کی طرح یہ غازی اپنے وعدے کے پکے ہیں۔ میری دعا ہے کہ تم ان کے آنے تک ایمان کی طے کردہ دولت سے سرفراز اور تعلیم و خواندگی کی لعنت سے محفوظ ہو جاؤ تاکہ ہمارے یہ بھائی اس رحم دلی کا مظاہرہ کر سکیں جس کی ہدایت انہیں عورتوں اور بچوں کے ضمن میں چودہ سو برس قبل کی گئی تھی۔ میں یہ خط انہی کے حوالے کر رہا ہوں کیونکہ اس صورت میں یہی تمہیں یہ خط پڑھ کر سنا سکیں گے۔ آخر تعلیم ان ہی کا تو حق ہے۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ اب تم اور ہماری دوسری بیٹیاں گھر کی چار دیواری میں محفوظ ہو جائیں گی اور ہمارے بہادر بھائی ان کی حفاظت پر مامور۔ ہمیں شادی کے ہندوانہ رسم و رواج سے بھی نجات ملے گی اور بلوغت کی اسلامی طور پر طے شدہ عمر میں یہ بہادر مرد کسی بھی مومنہ لڑکی سے عقدِ ثانی کی لیے موجود ہوں گے۔

اس سے بڑھ کر تمہیں کیا چاہیے؟ تمہیں کیوں اصرار ہے کہ تم تعلیم حاصل کرو؟ آخر تم اور اس ملک کی وہ بیٹیاں جو تھوڑی بہت تعلیم حاصل کر چکی ہیں، ہماری فلموں کے کرداروں کی طرح اپنا حافظہ کھو کر زندہ کیوں نہیں رہ سکتیں؟ اس سے بڑا جہاد کیا ہوگا کہ جو فلموں میں ہوتا ہے وہ ہماری زندگی میں ہو اور ہم فلموں سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لیں؟

اگر تم پھر بھی اپنی ضد پر قائم رہیں تو میرے لیے تمہیں بچانا بہت مشکل ہوجاۓ گا۔ حالات اگر اچھے ہوتے تو میں تمہیں چین بھیج دیتا کہ علم حاصل کرنے کے لیے اسلام میں مناسب ترین جگہ وہی قرار دی گئی تھی مگر ہمارے ان شاہینوں کی للکار نے وہاں بھی ایسی ہلچل مچائی ہے کہ کفار سے دوستی کا تمام پول کھل گیا ہے۔ اب وہ بزدل چینی نہ صرف ہمارے بھائیوں بلکہ بیٹیوں سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔

کتنی خوشی کی بات ہے کہ علم کا یہ جہنمی دروازہ بھی تم پر بند ہوا۔ اب مجھے ایک ہی امید ہے کہ تم جب جاگو تو یہ خط نہ پڑھ سکو۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ ہمارے شاہین بھائیوں کی، تمہاری اور مجھ جیسے بیٹیوں کے باپ کی بھی۔

خدا تمہیں علم و حافظے سے محفوظ اور نیک اعمال کی خوشیوں سے مالا مال رکھے۔


Read Comments