سری نگر: سری نگر کی ایک دُکھیاری ماں گزشتہ بیس برس سے اپنے لاپتہ بیٹے نذیر احمد کی راہ تکتے تکتے آخرکاراس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ یکم ستمبر دوہزار نو کو اپنے لختِ جگر کی راہ تکتے تکتے مغلی بیگم کی پتھرائی ہوئی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ساکت ہوگئیں۔
اس کی جدوجہد سمتبر انیس سو نوے میں شروع ہوئی جب ٹیچر نذیر کو اس کے اسکول جاتے ہوئے مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز نے اُٹھالیا۔
شادی کے صرف چند ماہ بعد ہی مغلی بیگم کو اس کے شوہر نے طلاق دیدی تھی۔ وہ نذیر کے ساتھ اکیلے رہتی تھی اور اس کے لاپتہ ہونے کے بعد اس کی بازیابی کی جنگ بھی اس نے تنہا ہی لڑی۔
'اس کا خواب اسکی آنکھوں میں ہی رہ گیا اور اس نے آنکھیں موند لیں، لیکن ہم اس کی جدوجہد جاری رکھیں گے،' پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ ایسوسی ایشن کی صدر پروینہ آہنگر نے کہا۔
پروینہ کا بیٹا جاوید احمد بھی گزشتہ بیس برس سے لاپتہ ہے۔ اگست انیس سو نوے میں جاوید کو مبینہ طور پر این اس جی کمانڈوز نے گرفتار کیا تھا۔ جب جاوید لوٹ کر نہیں آیا تو پروینہ اس کی تلاش کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
کشمیر کا کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں بچا جہاں میں نے اسے تلاش نہیں کیا،' پروینہ نے کہا۔
اپنی جدوجہد کے دوران پروینہ کو ایسی کئی خواتین ملیں جن کا دکھ سانجھا تھا اور وہ سب اپنے بیٹوں کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔ انیس سو چورانوے میں پروینہ نے ایسو سی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) کی بنیاد رکھی جس کے اب تک تین ہزار ممبر ہوچکی ہیں۔
اے پی ڈی پی کے تمام ارکان کا دکھ یکساں ہے، ہمارا مشن بھی ایک ہی ہے۔ اور ہم سب مل کر اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں،' پروینہ نے کہا۔
جب ستر سالہ تاجہ بیگم نے اپنے شوہر کو کھویا، تو وہ اپنے چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کیلئے مضبوطی سے کھڑی رہی۔
لیکن بچوں کی پرورش میں تمام تکالیف جھیلنے کے بعد تاجہ آج بھی اکیلی ہے اور کوئی نہیں جو اس کے آنسو پونچھ سکے۔
' جب میرے شوہر کا انتقال ہوا، اس وقت میرے بچے بہت چھوٹے تھے۔ میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے بچوں کو بہترین پرورش کی، لیکن میری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور میں آج بالکل تنہا ہوں۔' ہندواڑہ ضلع کی تاجہ بیگم نے بتایا۔
تاجہ نے اپنے اہلِ خانہ کی پرورش اور تربیت کیلئے سخت جدوجہد کی۔ جب اس کے بیٹے جوان ہوئے اور کمانے لگے تو اس کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔
' لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھے پوری زندگی کیلئے ایک نئے کرب کا سامنا ہوگا،' اس نے کہا۔
جنوری انیس سو چھیانوے کو اس کی زندگی کا سکون اس وقت تباہ ہوگیا جب چند لوگ بندوق تھامے ان کے گھر میں گُھس آئے، اور اس کےتین بیٹوں، محمد رمضان، محمد امین، اور غلام نبی کو اپنے ساتھ لے گئے۔
وہ اندھیری رات آخر انتظار میں کٹ گئی لیکن اس کے بیٹے لوٹ کر نہیں آئے۔ صبح کو دو بیٹوں کی سرد لاشیں قریبی چاول کی کھیتوں سے ملیں جبکہ غلام بنی گھر لوٹ آیا۔
لیکن صدمات کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ انیس سو چھیانوے میں غلام نبی، وادی میں پُراسرار گمشدگیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور تاجہ کا آخری بچ جانے والا بیٹا مشتاق احمد، انیس سو ستانوے میں ایک گولی لگنے سے معذور ہوگیا۔
عشروں کی دوڑ دھوپ کے بعد، اب جمیلہ بیگم کا یہ خواب ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا نام اس یادگار پر کندہ دیکھ سکے جسے اے پی ڈی پی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اس کا بیٹا محمد عرفان انیس سو چورانوے سے غائب ہے۔
' وہ میری دوائیں خریدنے بازار گیا تھا لیکن آج تک نہیں لوٹا،' جمیلہ نے کہا۔
آٹھویں جماعت کا طالبعلم عرفان جب لاپتہ ہوا تو اس کی عمر صرف چودہ برس تھی اور وہ جمیلہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔
' وہ میرا ایک ہی بیٹا تھا، اب میرے شوہر بستر سے لگ چکے ہیں اور میں خاندانی کی کفالت کیلئے تنہا جدوجہد کررہی ہوں۔'
جاناں بیگم کی کہانی بھی دوسروں سے کچھ مختلف نہیں۔ کبھی وہ سات بیٹوں کی ماں تھی اور اب اسکے صرف تین بیٹے ہیں۔
' میرا خاندان برباد ہوچکا ہے،' جاناں بیگم نے شکستہ آواز میں کہا۔
تنازعے کےگزشتہ بائیس برس میں جاناں بیگم نے اپنے چاربیٹے اور شوہر کو کھویا ہے۔ انیس سو ستانوے میں اس کا بیٹا لطیف احمد مبینہ طور پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔ انیس سو اٹھانوے میں اس کے دو بیٹے قتل کردیئے گئے۔ پھر دوہزار ایک میں اسے کا ایک اور بیٹا شریف الدین کام پر گیا اور گھر واپس نہ آیا۔
اے پی ڈی پی کے مطابق کشمیری وادی میں اب بھی دس ہزارسے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً متنازعہ اعدادوشمار ظاہر کئے جاتے رہتے ہیں لیکن اب تک تصدیق شدہ آفیشل اعدادوشمار سامنے نہیں آئے ہیں۔
جموں اور کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی حالیہ خزاں کی میٹنگ میں حکومت نے بتایا کہ جولائی دوہزار بارہ تک بھی کشمیر وادی میں دوہزار تین سو پانچ افراد لاپتہ تھے۔ ایک سو بیاسی کیسوں میں ایف آئی آر درج کرلی گئ۔ سات سو انتیس معاملات میں معاوضہ دیا جا چکا ہے۔ اٹھاون کییسز میں ہمدردی کے طورپراپائنٹمنٹ کے فوائد پہنچائے گئے، جبکہ پیسنٹھ کیسز میں حکومتی ملازمتوں کی جگہ رقم فراہم کی گئی۔
لیکن دوہزاردو میں نیشنل کانفرنس گورنمنٹ نے بتایا کہ انیس سو نواسی سے دوہزار دو تک تین ہزار ایک سو چوراسی افراد لاپتہ ہوئے۔ فروری دوہزارتین میں اس وقتے کے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اسٹیٹ اسمبلی کو بتایا کہ تین ہزار سات سو چوالیس افراد دوہزار سے دوہزار دو کے درمیان غائب ہوئے ۔ ان میں پندرہ سو تریپن افراد دوہزار دو میں لاپتہ ہوئے، دوہزار یک میں پندرہ سو چھیاسی افراد اور دوہزار دو میں چھ سو پانچ افراد لاپتہ ہوئے تھے۔
اس کا متنازعہ پہلو اس وقت سامنے آیا جب جموں کشمیر پینتھرز پارٹی کے بھیم سنگھ نے بتایا کہ دوہزار چار میں تنازعے کی ابتدا سے اب تک وادی میں چارہزار افراد لاپتہ ہوچکےہیں۔
دوہزارپانچ میں کانفرنس حکومت نے کہا کہ لاپتہ افراد کے چھ سو ترانوے کیسز رجسٹرڈ کئے گئےہیں۔
جنوری دوہزار سات میں وفاقی حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں اعتراف کیا کہ انیس سو نوے سے ایک ہزار سترہ نوجوان غائب تھے جن میں بارہ مولا کے چار سو تینتیس افراد اور اننت ناگ سے غائب ہونے والے افراد کی تعداد ایک سو تریپن ہے۔
دوہزار نو میں اسٹیٹ اسمبلی نے آفیشل اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ انیس سو نوے سے دوہزار نو تک تین ہزار چار سو انتیس افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار کئے جانے والے اور گھروں کو نہ لوٹنے والے افراد کی تعداد صرف ایک سو دس ہے۔
دوہزار گیارہ کے اسمبلی سیشن میں ، حکومت نے پھر کہا کہ ایک ہزار تین سو اٹھہتر افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔
چونکہ سینکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں، اے پی ڈی پی کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں ایک آزادانہ کمیٹی قائم کی جائے اور انٹرنیشنل کنوینشن آن انفورسڈ ڈس اپیئرینس کو تسلیم کیا جائے۔ اے پی ڈی پی سے وابستہ افراد انصاف کے لئے اور اپنے پیاروں کی تلاش کیلئے ہر ماہ دھرنا دیتے ہیں۔
جموں اینڈ کشمیر کوالیشن آف سِول سوسائٹی ( جے کے سی سی ایس) خرم پرویز نے ڈان کو بتایا کہ وادی میں لاپتہ ہونے کے واقعات کی تحقیقات کیلئے بین الاقوامی طور پرچھان بین ہونی چاہئے۔
' ریاست میں لاپتہ افراد کے آٹھ ہزار واقعات ہوچکے ہیں اور یہ ایک وسیع معاملہ ہے،' پرویز نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ ایک کیس میں بھی انصاف نہیں کیا گیا۔ ' ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں۔'
انسانی حقوق کے وکیل، پرویز امروز نے مزید کہا کہ لوگوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات کی تحقیقات وقت کی اہم ضرورت ہے۔
' لاپتہ ہونے کے واقعات ایک اہم مسئلہ ہے جس پر حکومت کو عملدرآمد کرنا چاہئے۔ ہم بین الاقوامی اداروں کو بھی اس عمل میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان اداروں کو اجازت نہیں دے رہی،' امروز نے کہا۔
پروینہ کی جدوجہد عمر بھر جاری رہے گی۔ ' ہم بھی اپنی موت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔'