Dawn News Television

شائع 29 نومبر 2012 03:59pm

ہم اور ہمارے ہیرو

ایک تو ہیرو قصے کہانیوں میں پائے جاتے ہیں جن کا کہانیوں سے باہر کوئی وجود بھی نہیں ہوتا۔ قصے کہانیوں سے باہر جو وجود رکھتے ہیں انکے اندر بھی کوئی نا کوئی ہیرو وجود رکھتا ہی ہے، خیالی اور حقیقت سے دور۔

لیکن حقیقی دنیا میں بھی ہیرو پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں، لگن، محنت، جانفشانی، خیالات اور سوچ سے اپنے علاقے، ملک، قوم اور معاشرے  پر اثرات چھوڑے ہوتے ہیں اور کسی نا کسی طرح لوگوں کی زندگی اور رہن سہن اور سوچ پر انکے نقش  نمایاں ہوتے ہیں۔

بچہ جب گھر میں ہوتا ہے تو ماں باپ اس کے ہیرو ہوتے ہیں، اسکول پہنچتا ہے تو ٹیچر یہ جگہ لے لیتا ہے اور جیسے جیسے زندگی کے رنگ دیکھتا جاتا ہے ایسے ایسے اس کے ہیروز بھی  تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔

جب ہم بچے تھے تب تک درسی کتابوں پر دین اور ملک کے بہترین مفاد میں جھاڑو نہیں پھری تھی، اگر کوئی ہندو ہوتا یا پارسی، اگر اس نے انسانیت، تعلیم، آرٹ، ادب اور ملک کی خدمت کی ہوتی تو اسے بھی درسی کتابوں میں جگہ ملتی اور بچے بھی  اس کے کام اور فکر سے آگاہ ہوتے۔

ویسے ہمارے ہاں تو چونکہ جو بھی سرکار آئی اس نے اپنےنظریات کے مطابق کورسز تبدیل کرنے کی کوشش کی، ویسے حکمرانوں کے نظریات تو کبھی بھی نہیں رہے جو بھی نعرہ حالات کے مطابق  مناسب لگا اسی کی آڑ میں حکمرانی  کو طول دیا۔

پینسٹھ کی جنگ کے بعد ہمارے ہیرو فوجی ٹھہرے پھر جو بھی جنگ لڑی، ہاری یا جیتی نشانِ حیدر جسے بھی ملا ہمارا ہیرو ٹھہرا۔ اور پھر ہوا یہ کہ زمانہ بھی بدلتا چلا گیا۔

مجھے یاد ہے وائیوا تھرموڈائنمکس کا تھا اور ہم بیٹھے آیتیں اور دعائیں یاد کر رہے تھے کہ پاس ہونے کے لیے یہی یاد کرنا ضروری تھا۔ اور تو اور ان دنوں اگر کسی کو نوکری کے لیے انٹرویو دینا ہوتا، بھلے ہی نوکری انجنیئر یا ڈاکٹر کی ہو لیکن اسے ان ہی سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا اور کامیابی تب ہی نصیب ہوتی اگر وہ ان سوالوں کے صحیح جواب دے پاتا۔ باقی جس سبجیکٹ سے متعلق اسے نوکری درکار ہوتی اس کے بارے میں جاننا کچھ ضروری نہیں تھا۔

ہمارے ہیرو یا تو وہ بنے جنہوں نے اس سرزمیں پر حملے کیے لوٹا اور تاراج کیا یا پھر وہ جن کا اس سرزمین کی تاریخ اور تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

پہلے تاریخ اور جغرافیہ پڑھتے تھے پھر اسے پاکستان اسٹڈیز کا نام دے کر اس میں سے سب کچھ نکال باہر کیا اور جو کچھ تھوڑا ہم اپنے بارے میں جان سکتے تھے اسے بھی غائب کردیا۔ فخر کرنے  کے لیے ہمارے پاس صرف جنگجو اور لٹیرے ہی رہ گئے۔

ادب، آرٹ، فلسفہ، فکر، سائنس، تعلیم اور انسانی خدمت سے وابستہ لوگ تو ہمارے ہیرو بن نہیں سکتے تھے۔ البتہ جو بھی اس وقت کی سرکار کو بھایا اسے قوم کا ہیرو بنانے کی کوشش ضرور کی۔ اس لیے ہمارے ہیرو بار بار بدلتے رہتے اور ہم وقتی ہیروز کے عادی بنتے گئے۔

ملک کے سب سے بڑے اعزاز اور ایوارڈ کی سفارشات بھی نوکر شاہی اس وقت کے حکمرانوں کے ساتھ مل جل کر بناتی ہے اور اس میں بھی عظیم تر قومی مفاد کو مدِنظر ضرور رکھا جاتا ہے تاکہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کوئی گزند نا پہونچے۔

پچھلے چند سالوں سے تو ایوارڈ باقاعدہ بٹتے ہیں، آپس میں، اپنے رشتے داروں، جاننے والوں اور قربانی دینے والوں میں، تھوڑے بہت جو بچ جاتے ہیں اس کے اہلِ علم اور اہلِ فن حقدار ٹھہرتے ہیں وہ بھی وہ جو اقتدار کے ایوانوں  میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ سو سب سے بڑی معراج جو اس ملک میں کسی کو ملتی ہے وہ صرف یہ اعزاز ہے۔ باقی اگر کوئی کتنا ہی بڑا لکھاری ہو، مفکر ہو، سماجی کارکن ہو، فنکار ہو، مصور ہو، گائیک کہ موسیقار اس کو اتنی ہی عزت دے سکتے ہیں، جتنی کہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ممکن ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ یہاں با صلاحیت اور بڑے لوگوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں، لیکن ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔ ہم اپنے فنکاروں کو پہچاننے کے لیے بھی باہر کی طرف دیکھتے ہیں، اگر باہر کی دنیا اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور اس کے فن کی قدرداں بنتی ہے تو وہ  پلک جھپکتے ہماری بھی آنکھوں کا تارہ بن جاتا ہے۔

جب تک وہ نصرت فتح علی کی طرح قوالیاں گا رہا ہوتا ہے تو ہمیں دکھائی بھی نہیں دیتا۔ جیسے ہی اسے باہر کی دنیا میں پذیرائی ملتی ہے۔ تو ہماری بھی ایلیٹ کلاس کی خواتین نصرت فتح علی کے کنسرٹ میں جانا اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہیں۔

ایسا ہی باقی فنون میں بھی ہوتا ہے، لوگ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر آسمان سے جیسے تارے اوجھل ہوجاتے ہیں ایسے وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے اوجھل ہوجاتے ہیں کہ ہمارا سب کام ایڈھاک بیسز پر ہوتا ہے۔ مستقل مزاجی تو سرے سے  ہم نے پائی ہی نہیں۔

پہلے تو اخبار اور میگزین ہوتے تھے جو کسی کو کچھ بھی بنادیتے تھے۔ اب تو چینل آگئے ہیں جو ایک ہی بریکنگ نیوز سے کسی کو کہیں بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ایک دن کسی کو آسمان پر پہنچادیتے ہیں تو دوسرے دن اسی کو زمین پر گرا دیتے ہیں۔ بس چلے تو زمین سے بھی نیچے پہنچانے میں دیر نہیں لگاتے۔

کتنے بڑے بڑے لوگ ہم نے بھی پیدا کیے ہیں۔ اگر زندہ ہے تو کسی کی نظر بھی نہیں پڑتی لیکن کسی حادثاتی موت کا شکار ہوجائے یا ویسے ہی راہِ اجل اختیار کرے تو سارے کیمرے اس کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ اور چینلز پر اس کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوجاتی ہے کہ ہم نے کتنا بڑا آدمی کھو دیا اور وہ بھی اتنی دیر تک کہ جب تک دوسری اس سے بھی زیادہ اہم بریکنگ نیوز  اس کی جگہ نا لے لے۔

اخبار، ٹی وی اور سوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر تو اس کی عمر اور بھی کم ہے ایک پل میں ہم ایک کا رونا رو رہے ہوتے ہیں تو دوسرے پل میں دوسرے کا، صرف اسٹیٹس اور پروفائیل پکچر بدل کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا۔

حکمران بھی رٹے رٹائے بیان جاری کردیتے ہیں اور بھائ صاحب کو تو ہر دوسرے گھنٹے بیان جاری کرنے کی عادت ہے۔ دو سے تین دن زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ اس کے بعد سب بھول جاتے ہیں۔ جو زندگی بھر آپ کے لیے جیتے رہے اس کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے تھا ہی نہیں۔

اگر اہل اقتدار میں کوئی راہی رسائی ہے یا سمجھیں کہ بہت ہی بڑا نام تھا جو چلا گیا تو اس کے نام پر یونیورسٹی میں چیئر بن جائے گی۔ اور چیئر بننے کے جو لوازمات ہیں وہ کبھی بھی پورے نہیں ہونگے کہ فنڈز اجازت نہیں دیتے اورحکمران اپنے جیسے جاہلوں میں سے کسی کو نواز دینگے اور دو چار نئی آسامیاں پیدا کرکے دو چار اپنے جیسوں کو بھی کھپا دینگے۔ باقی تحقیق اور تحریر کے لیے تو ویسے بھی اپنے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ تو فالتو کے لوگوں کا کام ہے۔ ہمیں تو تنخواہیں پوری نہیں ہوتیں۔

تو واپس آتے ہیں اپنے ہیروز پر، ہمارے دو پڑوسی ملک ہیں ایک ہندوستان اور دوسرا ایران۔ ہندوستان میں تو اپنے ہیروز کو پوجتے ہی ہیں، انہیں نا صرف سنبھالتے ہیں، ساری دنیا کو جتلاتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر کیسے کیسے قابلِ فخر لوگوں نے جنم لیا اور بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی بتاتے رہتے ہیں، مختلف طریقوں سے۔ انہیں محفوظ رکھنے اور انکے کام کو اور فکر زندہ رکھنے کے لیے اپنی نئی پیڑھی تک منتقل کرتے رہے ہیں۔

ایران جو ہماری طرح اسلامی ملک ہے وہاں تو ہیرو کوئی مولوی ابھی بھی نہیں۔ ادیب، شاعر، سائنسدان، مفکر، نقاش، موسیقار، مصور  ہی انکے ہیرو ہیں۔ کسی بھی شہر کے کسی بھی چوک میں چلے جائیں جس چوک کا جو نام ہوگا چوک میں اسی کا مجسمہ لگا ہوگا۔ درسگاہیں ہوں یا انکی آخری آرامگاہ، مجسمے ہر جگہ لگے ہیں. 

اور تو اور کسی پارک میں بھی جائیں تو اپنے ہیروز کے مجسمے لگے ہیں اور وہ بھی صدیوں پرانے والے ہیرو نہیں جو کٹیمپوریری ہیں جو ابھی اس صدی میں، اس دہائی میں بھی موجود تھے انہیں بھی موجود پائیں گے۔ ان پر تحقیق بھی ہوتی ہے انہیں محفوظ بھی کرتے ہیں۔ ان پر کتابیں بھی چھپتی ہیں لوگ  خریدتے بھی ہیں تو پڑھتے بھی ہیں اور ان کے افکار کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بناتے ہیں۔

 اور ہم  زیادہ سے زیادہ سال میں یاد کرینگے وہ بھی کوئی یاد دلادے تو۔ باقی چھٹی ہمیں جس کے نام پر بھی مل جائے وہ منانے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بارے میں جاننا اس کو پڑھنا اور اپنی نئی نسل تک منتقل کرنا یہ تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ سڑکوں پر نام رکھ دیتے ہیں۔ اس سے آگے ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔

 کراچی کی میئر شپ جب جماعت والوں کے ہاتھ تھی تو انہوں نے جاتے جاتے آدھے شہر کی سڑکوں کو نام نہاد "علماء" کے نام کردیا اور اب جو بیٹھے ہیں انکی ترجیحات تو ویسے بھی کچھ اور ہی ہیں۔

 ویسے تو ہم نے سب سے زیادہ ہیرو کھلاڑیوں کو ہی بنایا جو کبھی کبھار جیت کر بھی آئے اور ہیرو بن بیٹھے تو کبھی زیرو کہ ہماری قوم ایک گیند پر خوش ہوجاتی ہے تو دوسری پر ناخوش۔