Dawn News Television

شائع 06 دسمبر 2012 05:30pm

چھٹی خور قوم

باقی دنیا  میں تو چھٹی منائی جاتی ہے۔ ہمیں چونکہ کھانے پینے سےزیادہ چاہ ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں چھٹی بھی کھائی جاتی ہے۔ باقی دنیا میں لوگ پانچ دن کام کرتے ہیں اور دو دن چھٹی مناتے ہیں۔

ہمارے ہاں کام کرنے کا رواج تو ویسے بھی کم ہے اور کام نہ کرنے کے بہانے ہیں ہزار۔ ویسے کام کا ذکر اگر کہیں پایا جاتا ہے تو صرف قائد کے فرمان میں۔ ’کام ، کام اور صرف کام!‘ یہ فرمان  اب زیادہ تر سرکاری دفاتر اور سرکاری اسکولوں کی بوسیدہ دیواروں پردکھائی دیتا ہے۔ جن پر عمل نا ہی اسکولوں میں ہوتا ہے نا ہی دفاتر میں۔

کام اس ملک میں صرف ایک غریب کرتا ہے دوسری عورت، کہ جس کے کام کا نا کوئی مول ہے نا ہی قدر۔ غریب کے بھی کام کی کو ئی قیمت نہیں اس لیے جتنا بھی کرلے غریب ہی رہتا ہے۔

پہلے تو چھ دن کام  کے اور ایک دن چھٹی کا  ہوتاتھا۔ اور وہ چھٹی بھی اتوارکو ہوتی تھی۔ لیکن پھر مومنین کی آمد سے چھٹی بھی اتوار سے جمعے کو ہونے لگی۔ 1994 میں بینظیر صاحبہ کی سرکار کے کسی امریکہ پلٹ مشیر کو خیال آیا کہ ہماری قوم کو بھی پانچ دن کام اور دو دن آرام کرنا چاہیئے۔ اس بچارے کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ تو باقی دنوں میں بھی کام نہیں کرتے۔

پھرجب ان چھٹیوں کا نفاذ ہوا تو آرام پسند قوم کو اور بھی آرام آگیا۔ کام تو  ہم ہفتے بھر میں اگر دو دن بھی کرلیتے تھے تو بڑی بات ہوتی تھی اور سرکاری دفاتر میں تو کام پہلے بھی کچھوے کی چال سے ہی ہوتا آیا ہے۔ ہفتے کی دو چھٹیوں سے تو سب کے وارے نیارے ہوگئے۔

ویسے آجکل بھی وفاقی کابینہ نے بجلی بچانے کے بہانے دو دن چھٹی کا اعلان کیا ہوا ہے۔ صوبوں نے تو گھاس نہیں ڈالی۔ البتہ وفاقی ادارےسرکار کی بجلی بچار ہے ہیں اورساتھ میں دو دن کی چھٹی بھی کھا رہے ہیں۔ سب سے  زیادہ برا جو ہورہا ہے وہ یہ کہ بینک بھی بند رہتے ہیں۔ دھیرے دھیرے کچھ پرائیویٹ بینکوں نے ہفتے والے دن بینک کھولنے شروع کیے ہیں۔ البتہ اکثر بینک دو دن کی چھٹی کھاتے ہیں اور میرے اور آپ جیسے اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے کہ اگر جمعے کو  بینک سے پیسے نکالنا بھول جائیں  توباقی کے دن مشکل میں پڑجاتے ہیں۔

ویسے آپ کو مشکل میں ڈالنے کے لیے اور بھی بہت سےطریقے ہیں۔ کسی مہینے میں اگر دو چھٹیاں ساتھ آرہی ہیں تو سرکار اس کے آگے پیچھے ایک دن کی چھٹی اور نتھی کردیتی ہے تاکہ اس کے بہت زیادہ محنت کرنے والے ملازمین اور بھی آرام سے رہیں اور اپنے گاؤں گوٹھ سے بھی ہو آئیں۔

سندھ کی عوامی سرکار تو جب سے آئی ہے۔ چھٹیوں پر چھٹیاں کیے جا رہی ہے۔جب دل چاہا چھٹی کا اعلان کردیتے ہیں۔ اب تو قوم کو بھی پتہ لگ گیا ہے کہ یہ جو دو چھٹیاں آرہی ہیں اس کے ساتھ دو تین اور چھٹیاں  ضرور ملیں گی اور اگر نہیں بھی ملیں گی تو کر ہی لیتے ہیں۔ ویسے بھی یہاں کون پوچھتا ہے۔ اور اپنے رحمان ملک تو ہیں ہی۔ وہ چاہیں تو قوم کو ہفتہ بھر گھر بٹھا سکتے ہیں۔

رحمان ملک ہوں، قائد ِتحریک ہوں یا پھرمولوی حضرات، اگر حساب لگائیں تو سال میں ان کی مہربانی سے پہیہ اکثر جام رہتا ہے۔ کسی نا کسی کو شہید کرکے دو چار دن تو قوم کو گھر بٹھا ہی دیتے ہیں۔ آئے دن کوئی سوگ منا رہا ہوتا ہے تو کوئی احتجاج  اور ہڑتال کروا رہا ہوتا ہے۔ دو چار گاڑیاں جلا دیتے ہیں اور پہیہ خود ہی جام ہوجاتا ہے۔ کتنے اربوں کھربوں کا نقصان سال بھر میں ہوتا ہے۔ اس کا کوئی بھی حساب نہیں رکھتا۔

کہتے ہیں کہ کراچی جو اس ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کی ساٹھ فیصد سے زیادہ انڈسٹری یہاں سے کوچ کرچکی ہے۔سرمایہ دار اب پیسہ دوسرے شہروں تو کیا دوسرےملکوں میں لگا رہے ہیں۔ آجکل بنگلہ دیش سرفہرست ہے۔ اب تو ہندوستان نے بھی اجازت دیدی ہے پیسہ لگانے کی۔

ادھر سرکارخود بھی چھٹی کی شوقین ہے تو قوم کو بھی اسی راستے پر لگا دیا ہے۔ باقی جو پرائیویٹ اداروں میں ہیں ان کے پاس بھی، ٹریفک، سی این جی، ہنگامے، ہڑتال اور ایسے لاکھ بہانے ہیں۔

تعلیم کا تو جو حال ہورہاہے اس کے اثرات بھی آہستہ آہستہ نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ صرف پرائیویٹ اور ایلیٹ اسکولز میں یہ ہوتا ہے کہ ایکسٹرا کلاسز ہوتی ہیں اور کورس کسی نا کسی طرح پورا کروایا جاتا ہے۔ باقی سرکاری اسکول تو ایسی غلطی کبھی بھی نہیں کرتے۔ وہ جب کام والے دن بھی نہیں پڑھاتے تو باقی کے دنوں کی تو ان کی ویسے بھی ذمے داری نہیں۔

خدا بھلا کرے جج صاحبان کا کہ جن کی مہربانی سے سی این جی بھی چھٹیوں کے بہانے والی لسٹ میں شامل ہوگئی ہے۔ اب لوگ سارا سارا دن سی این جی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر اگر کہیں لائین لگی ملی تو آدھا دن لائین میں ہی گذار دیتے ہیں۔ دفتر اورکاروبار تو بعد کی بات ہے۔

باقی رہے حکمران اور نئے آنے والے حکمران جو حکمرانی کے خواب لیے مستقبل پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ ان کو ان چیزوں سے کیا لینا دینا۔ کسی کو اقتدار بچانے کی فکر ہے تو کسی کو اقتدار میں آنے کی فکر ہے ،سو جوڑ توڑجاری ہے۔ باقی رہی عوام تو وہ ہے کہ ماری ماری پھر رہی ہے۔ مسائل  نا اِن سے حل ہوئے۔ نا ہی آنے والوں سے کوئی  امید رکھیں۔

باقی رہی چھٹیاں تو اس کے لیے تیار رہیں۔ اس مبارک مہینے میں، پانچ دن ہفتہ ہے اور پانچ دن اتوار، ساتھ میں قائدِ اعظم کا جنم دن منائیں۔ (سوچتا ہوں اگر اگر جناح صاحب کا جنم 25 دسمبر کو نا ہوا ہوتا تو ہمارے مسیحی بھائی تو اس چھٹی سے بھی محروم رہ جاتے۔ کہ ہمارے جیسے مسلم ملک میں تو کرسمس کی چھٹی ہونے سے رہی) پھر بی بی کی شہادت کا دن  آئے گا۔ اس طرح بارہ دن کی چھٹی تو ویسے ہی بنتی  ہے۔ اور یار لوگوں نے اگر دو چار دن آگے پیچھے والے بھی ملادیے تو پندرہ دن کی چھٹی کہیں بھی نہیں گئی۔

اور خدانخواستہ رحمان ملک کو ایجنسیوں نے کوئی خظرے کی رپورٹ دیدی یا قائدِ تحریک، قوم پرست اور مولوی حضرات نے کسی احتجاج یا ہڑتال یا پہیہ جام کی کال دیدی تو بیس دن کی چھٹی کہیں بھی نہیں گئی۔ کیا یاد کریں گے کہ کس ملک میں رہتے ہیں۔ جن ممالک میں کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے ان بچاروں کو بھی دسمبر میں اتنی چھٹیاں نہیں ملتیں جتنی کہ ہم لوگ کھا نے والے ہیں۔

ادھر پچھلے دنوں ہمارے اخباروں میں ایک سروے چھپا کے کونسی قومیں زیادہ چھٹیاں کرتی ہیں۔ ان میں باقی سب کا ذکر تھا لیکن ایک اپنا نہیں تھا۔ سب سے کم چھٹی کرنے والے اور چھٹی والے دن بھی کام کرنے والے توہمارے پڑوسی ہی نکلے۔ جن سے ہمارا ہر چیز میں مقابلہ ہے۔ اور دیکھیں ہم کام نہ کرنے میں بھی ان سے آگے ہی ہیں۔ ویسے ان سے تو کیا  ہم تو پوری دنیا سے بھی آگے ہیں۔ اگرکوئی ہے تو کھا کے دکھائے ہمارےجتنی چھٹیاں!


Read Comments